Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول بھٹو زرداری بحیثیت وزیر خارجہ کیسے وزیر ثابت ہوں گے؟

 پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے حلف اٹھا لیا ہے۔ بدھ کو ایوان صدر میں بلاول بھٹو زرداری سے صدر عارف علوی نے حلف لیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر خارجہ بننے کو ایک بڑی خبر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو سیاست میں اپنے نانا اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے کئی کاموں کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی وزیراعظم منتخب ہونے سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ رہ چکے تھے اور ان کی سفارتی محاذ پر صلاحیتوں کی تعریف آج بھی کی جاتی ہے۔ 
پیپلز پارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ بنانے کا فیصلہ اس لیے بھی کیا گیا کہ مستقبل میں اگر وہ وزیر اعظم منتخب ہوتے ہیں تو اس سے پہلے وہ عالمی سطح پر اپنے آپ کو بحیثیت وزیر خارجہ متعارف کرا چکے ہوں گے تو انھیں دنیا میں زیادہ بہتر انداز سے دیکھا جائے گا۔ 
21 دسمبر 1988 کو کراچی میں پیدا ہونے والے بلاول کا پورا نام بلاول علی زرداری تھا جسے ان کی والدہ کی وفات کی بعد تبدیل کرتے ہوئے ’بلاول بھٹو زرداری‘ کر دیا گیا۔ ان کی پیدائش کے تین ماہ بعد ہی ان کی والدہ بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔
انھوں نے ابتدائی تعلیم کراچی گرامر سکول اور فروبلس انٹرنیشنل سکول اسلام آباد سے حاصل کی۔ دبئی منتقل ہونے کے بعد انھوں نے اپنی تعلیم راشد پبلک سکول دبئی میں جاری رکھی، جہاں وہ سٹوڈنٹ کونسل کے نائب چیئرمین بھی رہے۔
 2007 میں بلاول بھٹو نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے سب سے اہم کالج کرائسٹ چرچ میں داخلہ لیا۔ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے ’بی اے آنرز‘ کی سند جدید تاریخ اور سیاست کے شعبے میں حاصل کی۔ بلاول بھٹوزرداری یہاں بھی طلبہ یونین میں سرگرم رہے۔ 2010میں انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کرلی۔
باقاعدہ سیاست کے آغاز سے قبل بلاول بھٹو زرداری پاکستانی سیاست کی سختیوں سے نبرد آزما ہو چکے تھے۔ وہ اپنی والدہ کی انگلی تھامے پاکستان کی جیلوں میں اپنے والد آصف علی زرداری سے ملاقاتوں کے لیے جایا کرتے تھے۔
1999 سے 2007 کے دوران انھوں نے اپنی والدہ کے ساتھ جلا وطنی بھی کاٹی اور اس دروان بیشتر عرصہ وہ اپنے والد سے بھی دور رہے۔ 

سیاسی اور خارجہ امور کے ماہرین کے مطابق بلاول بھٹو کو ان کا خاندانی پس منظر اور تعلیم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے میں مدد دے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہی وجہ ہے کہ بلاول نے جب سیاست میں قدم رکھا تو عالمی امور، علاقائی مسائل، سیاسی سوجھ بوجھ اور جمہوریت کے حوالے سے ان کے موقف کو کئی سینیئر سیاست دانوں سے زیادہ پذیرائی ملی۔
انھوں نے 2008 سے 2013 کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی کے لیے سرتوڑ کوشش کی اور اس سلسلے میں پنجاب، کے پی کے، بلوچستان اور کشمیر میں درجنوں جلسے اور ریلیاں منعقد کیں اور اس کے کچھ نتائج بھی سامنے آئے۔ 
2012 میں کراچی میں ایک بڑے جلسہ عام کے ذریعے سیاست میں انٹری دینے والے بلاول بھٹو زرداری کم عمری کی وجہ سے 2013 کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔ 2018 کے انتخابات میں این اے 200 لاڑکانہ سے منتخب ہو کر ایوان میں پہنچنے والے بلاول بھٹو زرداری اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر تھے اور اپنے پہلے ہی خطاب میں انھوں نے وزیراعظم عمران خان کو ’سلیکٹڈ‘ کا خطاب دے دیا جو اب بھی زبان زد عام ہے۔ متعدد مواقع پر انھوں نے اسمبلی فلور پر اپنے فنِ خطابت کا لوہا منوایا ہے۔ 
کرکٹ، تیراکی، نشانہ بازی اور گھڑ سواری کا شوق رکھنے والے اور کراٹے میں بلیک بیلٹ کے حامل بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزارت خارجہ ڈپلومیسی ایک نیا چیلنج ہوگا۔ 
سیاسی اور خارجہ امور کے ماہرین کے مطابق جہاں بحیثیت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو ان کا خاندانی پس منظر اور تعلیم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں مدد دے گا، وہیں ان کے لیے چیلنج بھی ہوگا۔ ان کے سامنے رول ماڈل شاہ محمود قریشی نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر ہوں گے۔ 
سیاسی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری کی بحیثیت وزیر خارجہ کابینہ میں شمولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’قومی اسمبلی میں ساڑھے تین سال میں بلاول نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلق اور بیرون ملک تعلیم کی وجہ سے وہ خارجہ امور میں خاصا علم رکھتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی اگرچہ وزیر خارجہ نہیں بلکہ دفتر خارجہ اور حکومت ملک کر بناتے ہیں لیکن وزیر خارجہ کا کام اس پالیسی کو دنیا کے سامنے رکھنا اور ملکی مفادات کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ ’زبان و بیان پر بھی عبور کی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی پالیسی دنیا کے سامنے بہتر انداز میں رکھ سکتے ہیں اور پاکستان کا مقدمہ بھی لڑ سکتے ہیں۔‘

احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ وزیرخارجہ کا کام  ملک کی خارجہ پالیسی کو دنیا کے سامنے رکھنا اور ملکی مفادات کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ بلاول بھٹو پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور دنیا میں اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔
’اسی طرح اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے بھی انھیں دنیا میں جانا جاتا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں تو یہ چیزیں انھیں ایک اچھا وزیر خارجہ بننے میں مدد دے سکتی ہیں۔‘
خارجہ امور کے ماہر اور سابق سفیر آصف درانی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’بلاول ایک نوجوان سیاست دان ہیں اور اپنی سیاسی تربیت کے باعث ان کا وزیر خارجہ بننا ایک مثبت قدم ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری پر اس لیے بھی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ انھیں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پیروی کرنا ہے۔ ’ان دونوں نے سفارت کاری کے میدان میں بہت محنت کی تھی۔ اس لیے اب بلاول کو بھی معمول سے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ انھیں دفتر خارجہ کی بریفنگ کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرنا ہوگی کیونکہ پوری دنیا میں یہی پریکٹس ہے۔ مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب وزرائے خارجہ دفتر خارجہ کی ایڈوائس یا بریف کو نظر انداز کرتے ہیں۔‘

شیئر: