Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایلون مسک کی ٹوئٹر پر ’آزادی اظہار رائے‘، کیا تاریخ دہرائی جائے گی؟

تجزیہ کاروں کو ٹوئٹر کے نئے مالک ایلون مسک کی جانب سے قواعد تبدیل کیے جانے کا خدشہ ہے۔ فوٹو: روئٹرز
دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر 44 ارب ڈالر میں خریدتے وقت یہ مقصد بتایا ہے کہ وہ اس کو ’آزادی اظہار‘ کی جنت بنانا چاہتے ہیں تاہم اس ایپ کے آغاز کے وقت بھی اس کا یہی عزم تھا جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک دہائی قبل ٹوئٹر کے ایگزیکٹیو نے کمپنی کو اظہار رائے کی آزادی کا علمبردار قرار دیتے ہوئے ’آزادی اظہار کی پارٹی کا آزادی اظہار ونگ‘ قرار دیا تھا۔
اس کے بعد دنیا کے کئی ملکوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے جہاں اس اظہار رائے کی آزادی کے علمبردار پلیٹ فارم پر موجود افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ کئی عرب ممالک میں ’عرب سپرنگ‘ کے مختصر دورانیے کے مظاہروں کے دوران بھی ایسا دیکھا گیا۔
سنہ 2014 میں امریکہ میں خاتون صحافی اماندا ہیس کے آرٹیکل نے خواتین کے خلاف ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خیالات کے اظہار کے بعد مسلسل حملوں کو بھی سامنے لایا۔
اگلے چند برسوں میں ٹوئٹر کی انتظامیہ نے بغیر کسی دیکھ بھال کے چلنے والے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے نتائج سے سیکھا۔ اس میں ایک اہم چیز یہ تھی کہ کمپنیاں یہ نہیں دیکھنا چاہتیں کہ ان کے اشتہار ایسی جگہ چلیں جہاں اشتعال، تشدد پر اکسانے، نفرت انگیز تقاریر اور گمراہ کن معلومات پھیلائی جا رہی ہوں جن کا مقصد الیکشن کے نتائج پر اثرانداز ہونا ہو یا جن سے عام لوگوں کی صحت کو نقصان پہنچے۔
نیو یارک یونیورسٹی کے سینیٹر فار بزنس اینڈ ہیومن رائٹس کے ڈپٹی ڈائریکٹر پال بیرٹ کہتے ہیں کہ ’ایلون مسک جس طرح یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ہر بات کہنے کی آزادی چاہتے ہیں، باقی تمام باتوں کو چھوڑ دیں، صرف یہی بات بذات خود بری ہے۔‘
پال بیرٹ نے کہا کہ ’اگر دیکھ بھال کے خودکار نظام اور انسانی نظرثانی کو ختم کر دیا جائے تو ٹوئٹر جیسی ایک بڑی جگہ بہت کم عرصے میں ٹھہرے ہوئے پانی کا جوہڑ بن جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ گوگل نے یہ سبق بہت جلد سیکھ لیا تھا جب سنہ 2015 میں ٹویوٹا اور دیگر بڑی کمپنیوں کے اشتہار انتہا پسندوں کی تیار کردہ یوٹیوب ویڈیوز میں چلے تو ان کو روکنا پڑ گیا۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب ٹوئٹر کے شریک بانی جیک ڈورسی نے برسوں لگا کر اس سوشل میڈیا ایپ پر مباحثے کو ’صحت مندانہ‘ بنانے کی کوشش کی۔  جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں مباحثہ کس قدر غیر صحت مندانہ ہو گیا تھا۔
ٹوئٹر کو بہت جلد صارفین کے لیے ’رپورٹ ابیوز‘ کا بٹن متعارف کرانا پڑا جب برطانوی رکن پارلیمان سٹیلا کریسی کو آن لائن ریپ اور قتل کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بظاہر ایک مثبت ٹویٹ میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کیرولین کریاڈو پیریز کی حمایت کی تھی۔
بعد ازاں سٹیلا کریسی کو دھمکیاں دینے والے ایک صارف کو 18 ہفتوں کے لیے جیل بھیجا گیا تھا۔
ٹوئٹر نے اپنے قواعد بنانے پر کام جاری رکھا اور اپنے سٹاف اور ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کی تاکہ پرتشدد، اشتعال انگیز، ہراساں کیے جانے اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو اپنے پلیٹ فارم پر روکے۔

دنیا کے امیر ترین شخص قرار دیے جانے والے ایلون مسک نے ٹوئٹر کو 44 ارب ڈالر میں خریدا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سنہ 2016 میں روس کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو امریکی صدارتی الیکشن پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال کیے جانے کے شواہد سامنے آئے تو ٹوئٹر اور دیگر کمپنیوں نے غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششیں تیز کیں۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایلون مسک جس اظہار رائے کی آزادی کے حتمی علمبردار کے طور پر آئے ہیں اور اس پورے نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو کیا صارفین اور ایڈورٹائزرز بھی اس کے ساتھ جڑے رہیں گے اگر وہ ایسا کرتے ہیں۔
’فائٹ فار دی فیوچر‘ نامی تنظیم کھے سیاسی ایکٹیوسٹ ایوان گریر کہتے ہیں کہ ایلون مسک کے پاس ایک بااثر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی دیکھ بھال کرنے کے تجربے کی کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم آن لائن اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ چاہتے ہیں تب ہم ایسی دنیا میں نہیں رہ سکتے جہاں سب سے امیر شخص ایک ایسے پلیٹ فارم کو خرید کر اپنی مرضی کے قواعد تبدیل کر دے جس پر دسیوں لاکھ افراد انحصار کرتے ہیں۔‘

شیئر: