پنجاب میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمات: کیا ایف آئی آر سے ’کریمینل ریکارڈ‘ بن جاتا ہے؟
پنجاب میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمات: کیا ایف آئی آر سے ’کریمینل ریکارڈ‘ بن جاتا ہے؟
جمعہ 5 دسمبر 2025 5:27
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں موٹر وہیکل قوانین میں ہونے والی حالیہ ترامیم اور ان پر سخت عمل درآمد نے عام شہری کے لیے ٹریفک خلاف ورزی کو سیدھا فوجداری (کریمینل) مسئلہ بنا دیا ہے۔
صوبائی موٹروہیکل (ترمیمی) آرڈیننس 2025 اور بعد کی ترامیم کے تحت جُرمانے کئی گنا بڑھ گئے ہیں، خلاف ورزیوں کا ریکارڈ اب ڈیجیٹل سسٹم (ڈی ایل آئی ایم ایس) میں محفوظ ہو رہا ہے اور کچھ خلاف ورزیوں پر سیدھا ایف آئی آر اور گرفتاری ہو رہی ہے۔
اسی پس منظر میں ایک روز میں 40 ہزار سے زائد چالان، سینکڑوں ایف آئی آرز اور گرفتاریاں رپورٹ ہو چکی ہیں جس کے بعد لوگوں کا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ٹریفک خلاف ورزی پر ایف آئی آر ہو جائے تو آگے کیا ہوتا ہے، کون سی دفعات لگتی ہیں کتنی سزا ہو سکتی ہے اور کیا مستقل کریمینل ریکارڈ بن جاتا ہے یا نہیں؟ نئی قانون سازی: روڈ سیفٹی سے ڈیجیٹل نگرانی تک
چار مارچ 2025 کو نافذ ہونے والے صوبائی موٹروہیکلز (ترمیمی) آرڈیننس 2025 اور بعد میں منظور ہونے والے ترمیمی ایکٹس کے ذریعے پنجاب کے پرانے موٹر وہیکل قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جرمانوں میں نمایاں اضافہ ہوا اور اب زیادہ تر عام خلاف ورزیوں پر کم سے کم دو ہزار روپے جرمانہ رکھا گیا ہے۔
ساتھ ہی ایک نیا نظام متعارف ہوا ہے جس میں ہر خلاف ورزی کا اندراج ڈی ایل آئی ایم ایس پر ڈرائیونگ ہسٹری میں ہو رہا ہے، یعنی آپ کا ٹریفک رویہ اب مستقل ڈیٹا کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔
نئے نظام میں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانا، کم عمری میں ڈرائیونگ، ٹریفک رُولز کی سنگین خلاف ورزی، خطرناک یا خراب گاڑی استعمال کرنے پر آپ کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
ایمرجنسی لین کا غلط استعمال، کالے شیشے، غیر معیاری لائٹس اور اس نوعیت کی دیگر خلاف ورزیاں اب صرف معمولی چالان نہیں رہیں بلکہ ان پر جرمانے کے ساتھ ساتھ قید کی سزا کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے جو بعض دفعات میں چھ ماہ سے دو سال تک ہو سکتی ہے۔ کن خلاف ورزیوں پر اب سیدھی ایف آئی آر بنتی ہے؟
سب سے زیادہ توجہ کم عمر افراد کی ڈرائیونگ پر ہے اور نئے آرڈیننس کی دفعہ 99 اور 99 بی کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کو موٹرسائیکل یا گاڑی چلاتے ہوئے پکڑے جانے پر فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
ایک ہی سنگین خلاف ورزی بار بار کرنے پر ٹریفک پولیس نے ایف آئی آرز درج کرنا شروع کر دی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
تاہم وزیراعلٰی پنجاب اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی مداخلت پر اب کم عمر نوجوانوں کے خلاف مقدمات درج کرنا بند کر دیا گیا ہے اور حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اب یہ مقدمات گاڑی یا موٹرسائیکل کے مالکان یعنی والدین کے خلاف ہوں گے۔
اسی طرح پرانا جُرمانہ 200 روپے سے بڑھا کر کم سے کم 2000 روپے کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی چھ ماہ تک قید اور اضافی جُرمانے کی حد بھی رکھی گئی ہے۔
اسی طرح بار بار ایک ہی سنگین خلاف ورزی کرنا، مثلاً ون وے کی مسلسل خلاف ورزی، دھواں چھوڑنے والی گاڑی چلانا، مسافروں کو چھت پر بٹھا کر سفر کرانا، بہت زیادہ اوورلوڈنگ، یا بغیر لائسنس گاڑی چلانا، ایسے جرائم ہیں جن پر پولیس نے واضح طور پر ایف آئی آرز درج کرنا شروع کر دی ہیں۔
بعض کارروائیوں میں ایک ہی دن میں بغیر لائسنس ڈرائیونگ، ون وے کی خلاف ورزی اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
اگر خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ حادثہ،چوٹ یا موت بھی واقع ہو جائے تو اس کے ساتھ پاکستان پینل کوڈ کی متعلقہ دفعات بھی شامل کی جا سکتی ہیں، جس سے مقدمہ مزید سنگین ہو جاتا ہے لیکن عام ٹریفک کریک ڈاؤن میں زیادہ زور موٹروہیکل کی انہی نئی دفعات پر ہے۔
’اگر کسی شہری کے خلاف نئے ٹریفک قوانین کے تحت ایف آئی آر درج ہو جائے تو وہ کسی وکیل سے رابطہ کرے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تھانے میں کیا ہوتا ہے؟
فوجداری مقدمات کے ماہر وکیل ایڈووکیٹ منیر بھٹی کہتے ہیں کہ ’ایف آئی آر درج ہوتے ہی معاملہ چالان سے نکل کر فوجداری کیس بن جاتا ہے۔ پولیس عام طور پر ملزم ڈرائیور یا گاڑی کے مالک کو حراست میں لے کر تھانے لے جاتی ہے۔‘
’ضابطہ فوجداری کے عمومی اصول کے مطابق پولیس کو پابند تصور کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی گرفتار شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر کسی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’نئے کریک ڈاؤن کے دوران عملی پالیسی یہ اختیار کی گئی ہے کہ تھانوں کے ایس ایچ اوز کم عمر یا بغیر لائسنس ڈرائیونگ جیسے معاملات میں بھی خود سے شخصی ضمانت پر چھوڑنے سے گریز کریں اور ملزمان کو حوالات میں رکھ کر اگلے دن عدالت کے سامنے پیش کریں۔‘
’یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں متعدد والدین اور طلبہ نے شکایت کی کہ ان کے بچوں کو رات حوالات میں رکھ کر اگلے دن عدالت لے جایا گیا جہاں وہ وکیل کے ذریعے ضمانت کے لیے پیش ہوئے، بلکہ بعض اوقات مقدمات زیادہ ہونے اور وسائل کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو ٹرکوں میں بھر کر لایا گیا۔ عدالت میں پیشی، ضمانت اور مقدمے کی کارروائی کیسے چلتی ہے؟
منیر بھٹی کے مطابق ’اگلا مرحلہ عموماً جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیشی کا ہوتا ہے۔ عدالت میں ملزم کے وکیل، پولیس اور کبھی کبھی پراسیکیوشن کی مختصر بحث کے بعد یہ دیکھا جاتا ہے کہ جُرم کی نوعیت کیا ہے۔‘
27 نومبر کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے پنجاب میں 40 ہزار چالان اور 21 کروڑ روپے جرمانہ کیا گیا (فائل فوٹو: روئٹرز)
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا یہ خلاف ورزی پہلی مرتبہ ہوئی ہے یا بار بار، کیا کوئی حادثہ ہوا ہے، اور کیا ملزم کی عمر، تعلیمی پس منظر یا دیگر حالات نرم رویہ اختیار کرنے کا تقاضا کرتے ہیں یا نہیں۔‘
زیادہ تر ٹریفک خلاف ورزیاں ایسی نوعیت کی ہیں کہ ان میں ملزم کو ضمانت ملنے کا حق ہوتا ہے لیکن اب اس حق کا استعمال تھانے کے بجائے عدالت کے ذریعے ہو رہا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ضمانت ملنے کے امکانات عموماً زیادہ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی عدالت کی پیشی، وکیل کی فیس، والدین یا اہلِ خانہ کی دوڑ دھوپ اور حوالات میں گزری ہوئی رات ایک حقیقی نفسیاتی اور سماجی قیمت بن کر سامنے آرہی ہے۔
حالیہ عوامی ردِعمل کے بعد وزیرِاعلٰی مریم نواز نے خاص طور پر ہدایت کی ہے کہ سکول اور کالج کے طلبہ کو گرفتاری اور ہتھکڑی سے حتی الامکان بچایا جائے اور قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی والدین یا گاڑی کے مالک کے خلاف کی جائے، تاکہ بچے براہِ راست فوجداری ریکارڈ کا حصہ نہ بنیں۔ سزا کتنی ہو سکتی ہے؟ جُرمانے، قید اور گاڑی یا لائسنس پر اثرات
اگر ٹرائل کے بعد جُرم ثابت ہو جائے تو عدالت متعلقہ دفعات کے تحت سزا سناتی ہے۔ نئی ترامیم کے مطابق کم عمر یا بغیر لائسنس ڈرائیونگ،عام ٹریفک رولز (سگنل، لین، ایک طرفہ سڑک، اوورلوڈنگ) کی سنگین خلاف ورزی یا بار بار قانون توڑنے کی صورت میں کم سے کم 2000 روپے سے لے کر 15 ہزار روپے تک جرمانہ اور اس کے ساتھ چھ ماہ تک قید کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
بار بار قانون توڑنے کی صورت میں کم سے کم 2000 روپے سے 15 ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اسی طرح خطرناک یا تکنیکی طور پر خراب گاڑی سڑک پر لانے جیسے کیسز میں قید کی حد بعض دفعات میں دو سال تک بھی جا سکتی ہے۔
اگر کسی خلاف ورزی کے نتیجے میں حادثہ ہو جائے، کسی کو چوٹ لگے یا موت واقع ہو تو پھر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے تحت سزائیں مزید سخت ہو سکتی ہیں۔
ان سزاؤں میں قید کی مزید طویل مدت اور زیادہ جرمانے شامل ہو سکتے ہیں۔ ایسے کیسز میں صرف ٹریفک ریکارڈ ہی نہیں بلکہ مکمل فوجداری ریکارڈ پر اثر پڑتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم فرق یہ بھی ہے کہ اب ہر چالان اور ہر سزا ڈی ایل آئی ایم ایس کے ڈیجیٹل ریکارڈ میں محفوظ ہو رہی ہے۔
اگر کوئی ڈرائیور بار بار خلاف ورزی کرتا رہے تو مستقبل میں لائسنس کی تجدید، بیمہ اور بعض صورتوں میں دیگر اداروں کے ساتھ معاملات میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ کیا ٹریفک ایف آئی آر سے ’کریمنل ریکارڈ‘ بن جاتا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس نے والدین، طلبہ اور ملازمت پیشہ نوجوان افراد کو سب سے زیادہ پریشان کر رکھا ہوا ہے۔ فوجداری وکالت کے ایک اور ماہر وکیل شمیم ملک (سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار) کہتے ہیں کہ ’قانونی طور پر اس میں فرق سمجھنا ضروری ہے۔‘
والدین نے احتجاج کیا ہے کہ کم عمر بچوں کو فوجداری نظام کا حصہ بنانا ان کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’اگر معاملہ صرف روایتی چالان اور جرمانے تک محدود رہے تو عموماً یہ ریکارڈ ٹریفک اور لائسنس کے نظام تک محدود ہوتا ہے، یعنی آپ کے نام، سی این آئی سی اور لائسنس میں ’وائلیٹر ہسٹری‘ کے طور پر موجود رہتا ہے لیکن یہ ہر جگہ ’کریمنل ریکارڈ‘ کے طور پر سامنے نہیں آتا۔‘
شمیم ملک مزید کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی کسی خلاف ورزی پر ایف آئی آر درج ہوتی ہے یا گرفتاری ہوتی ہے اور آپ کا مقدمہ فوجداری عدالت میں چلتا ہے تو پھر آپ کا نام پولیس کے فوجداری ریکارڈ کا حصہ بن سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اگر بعد میں آپ بری ہو جائیں، مقدمہ ختم ہو جائے یا اپیل میں سزا کالعدم ہو جائے تو قانونی طور پر آپ کو مجرم تصور نہیں کیا جا سکتا، لیکن ایک عام شہری کے لیے یہ تجربہ پھر بھی ویزہ کے حصول بعض ملازمتوں یا سکیورٹی کلیئرنس کی سطح پر سوالات پیدا کر سکتا ہے۔‘
’اسی خدشے کی بنیاد پر وکلا اور والدین نے احتجاج کیا کہ کم عمر بچوں کو اس طرح فوجداری نظام کا حصہ بنانا ان کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، جس کے بعد ہی وزیرِاعلٰی نے طلبہ کے ساتھ نرم رویہ اور والدین و مالکان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی۔‘ اب تک کتنی کارروائیاں ہو چکی ہیں؟
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پنجاب ٹریفک پولیس نے نومبر کے آخری ہفتوں اور دسمبر کے آغاز تک اس کریک ڈاؤن کو صوبہ بھر میں یکساں طور پر سختی سے نافذ کیا۔
وزیرِاعلٰی نے ہدایت کی ہے کہ سکول اور کالج کے طلبہ کو گرفتاری اور ہتھکڑی سے حتی الامکان بچایا جائے (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)
صرف 27 نومبر کو جاری ہونے والی ایک روزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پورے پنجاب میں 40 ہزار سے زائد چالان کیے گئے، 6 ہزار 690 گاڑیاں ضبط کی گئیں، 324 فوجداری مقدمات (ایف آئی آرز) درج ہوئے اور 314 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
اس سے پہلے سموگ اور آلودگی کے خلاف مہم کے دوران رپورٹ کیا گیا تھا کہ مختلف کارروائیوں میں مجموعی طور پر 82 ہزار 601 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں۔
ان خلاف ورزیوں پر 21 کروڑ روپے سے زائد جرمانے عائد کیے گئے، ان میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں، غیر معیاری ایگزاسٹ سسٹم اور سموگ سے متعلق دیگر خلاف ورزیاں شامل تھیں۔‘
اعدادوشمار سے واضح ہے کہ کریک ڈاؤن صرف چند علاقوں تک محدود نہیں بلکہ یہ پالیسی صوبہ بھر کے لیے ہے، اور ٹریفک جرائم کو روایتی ’چالان‘ سے نکال کر ’فوجداری نظم و ضبط‘ کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ عام شہری کے لیے سادہ گائیڈ: اگر آپ کے خلاف ٹریفک ایف آئی آر ہو جائے تو؟
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی شہری کے خلاف نئے ٹریفک قوانین کے تحت ایف آئی آر درج ہو جائے تو گھبرانے کے بجائے کسی قابلِ اعتماد وکیل یا لیگل ایڈ سے رابطہ کیا جائے۔
’گھر والوں کو صورت حال سے آگاہ رکھا جائے۔ تھانے میں آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ کو بتایا جائے آپ پر کیا الزام ہے اور کون سی خلاف ورزی کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے۔‘
پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اب مقدمات کم عمر ڈرائیورز کے بجائے ان کے والدین کے خلاف درج ہوں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اگر آپ یا آپ کے بچے کم عمر ڈرائیونگ، بغیر لائسنس، ون وے کی سنگین خلاف ورزی یا دھواں چھوڑنے والی گاڑی جیسے کیس میں پکڑے جائیں تو ذہن میں رکھیں کہ اب یہ معاملہ زیادہ امکان کے ساتھ اگلے دن مجسٹریٹ کی عدالت تک جائے گا جہاں ضمانت کا امکان موجود ہوتا ہے۔
تاہم اس کے لیے وکیل اور گھر والوں کی موجودگی اہم ہے۔ طلبہ کے معاملے میں تازہ ہدایات کے باعث اب زیادہ زور والدین اور گاڑی کے مالک پر ڈالا جا رہا ہے، اس لیے والدین کو خود بھی ذمہ داری لینا ہو گی کہ وہ کم عمر بچوں کو موٹرسائیکل یا گاڑی نہ چلانے دیں۔
سب سے محفوظ راستہ یہی ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس، گاڑی کی رجسٹریشن، ٹوکن ٹیکس اور شناختی کارڈ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں، ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ کا استعمال معمول بنائیں۔
اگر کبھی ٹریفک اہلکار آپ کے ساتھ کوئی زیادتی کرے تو اس کے جواب میں قانون شکنی کے بجائے قانونی راستہ اختیار کریں۔ نئے نظام میں ایک جانب سزائیں سخت ہوئی ہیں تو دوسری جانب ہر شہری کے رویے کا ریکارڈ بھی بن رہا ہے، لہٰذا بہترین دفاع ایک صاف اور ذمہ دارنہ ڈرائیونگ ہسٹری ہے۔