پوتن اور مودی کی ملاقات، ’انڈیا یوکرین میں امن کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے‘
پوتن اور مودی کی ملاقات، ’انڈیا یوکرین میں امن کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے‘
جمعہ 5 دسمبر 2025 6:15
روسی صدر ولادیمیر پوتن اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان نئی دہلی میں بات چیت کا آغاز ہو گیا ہے۔ روسی صدر کا نئی دہلی میں پُرتپاک استقبال کیا گیا اور وزیراعظم مودی نے انہیں بتایا کہ انڈیا یوکرین میں امن کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق نریندر مودی نے بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا غیرجانبدار نہیں ہے۔ انڈیا کا ایک موقف ہے اور وہ موقف امن کا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم امن کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کی حمایت کرتے ہیں اور امن کے لیے اُٹھائے جانے والے ہر قدم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔‘
جواب میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے تنازع کے حل کے لیے توجہ اور کوششوں پر نریندر مودی کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں موقع ملا جو آپ نے دیا کہ ہم یوکرین کی صورتحال پر تفصیل سے بات کریں، اور ان اقدامات پر بھی گفتگو کریں جو ہم امریکہ سمیت کچھ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اس بحران کے ممکنہ پُرامن حل کے لیے اُٹھا رہے ہیں۔‘
روسی صدر نے کہا کہ ’جیسے جیسے ہمارے ممالک اور معیشتیں آگے بڑھ رہی ہیں، تعاون کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ نئے شعبے سامنے آ رہے ہیں اعلیٰ ٹیکنالوجی، ہوابازی میں مشترکہ کام، خلائی شعبہ، اور مصنوعی ذہانت۔‘
ولادیمیر پوتن نے مزید کہا کہ دفاعی اور تکنیکی تعاون میں ہمارا ایک پُراعتماد رشتہ ہے، اور ہم ان تمام شعبوں میں مزید آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘
روسی صدر ولادیمیر پوتن اور وزیراعظم نریندر مودی ملاقات میں اہم امور پر تبادلۂ خیال کریں گے جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانا ہے۔
صدر ولادیمیر پوتن چار سال بعد پہلی بار انڈیا کا دورہ ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب نریندر مودی کے لیے حالات زیادہ سازگار نہیں ہیں۔
امریکہ کی جانب سے 50 فیصد ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد نئی دہلی واشنگٹن کے ساتھ ایک انتہائی اہمیت کے حامل تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔
انڈیا نے حال ہی میں روسی تیل کی خریداری کم کی ہے اور امریکہ سے گیس خریدنے کا وعدہ کیا ہے۔
انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ’ہم امن کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کی حمایت کرتے ہیں‘ (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا روسی اسلحے اور سمندر کے راستے سے آنے والے روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے جبکہ مغربی ممالک کی جانب سے عائد کی گئی پابندیاں ان کے دہائیوں پُرانے تعلقات پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔
ماسکو کئی دہائیوں سے انڈیا کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرنے والا ملک رہا ہے اور اس نے کہا ہے کہ وہ انڈیا کی مزید مصنوعات درآمد کرنا چاہتا ہے تاکہ 2030 تک دو طرفہ تجارت کو 100 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکے۔
تقریباً چار سال قبل روس کے یوکرین پر حملے کے بعد جب یورپی ممالک نے روسی توانائی پر انحصار کم کر دیا تو انڈیا نے سستا روسی خام تیل زیادہ مقدار میں خریدنا شروع کر دیا۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ کے سینیئر ماہر مائیکل کوگلمین نے رواں ہفتے فارن پالیسی میگزین میں لکھا تھا کہ ’انڈیا ایک مشکل صورتحال میں ہے۔ اگر وہ ماسکو یا واشنگٹن میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرتا ہے تو دوسرے کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا خطرہ ہے۔‘
انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان لیبر اور سول نیوکلیئر انرجی سمیت کئی دیگر معاملات پر بات چیت کی بھی توقع ہے جبکہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو ’مضبوط‘ ظاہر کرنے کے لیے نئے معاہدوں کو اعلان بھی کر سکتے ہیں۔
نریندر مودی نے اپنی رہائش گاہ پر صدر پوتن کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا (فوٹو: اے ایف پی)
جمعرات کو جب روسی صدر دو روزہ دورے پر نئی دہلی کے ایئرپورٹ پہنچے تو انڈین وزیراعظم نے گلے لگا کر مصافحہ کرتے ہوئے ان کا استقبال کیا۔ اس کے بعد مودی نے اپنی رہائش گاہ پر صدر پوتن کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا۔
کاروباری اور سرکاری نمائندوں پر مشتمل وفد بھی روسی صدر کے ہمراہ ہے جس میں روس کے وزیر دفاع آندرے بیلوسوف بھی شامل ہیں جنہوں نے جمعرات کو بھارتی وزیرِ دفاع راجناتھ سنگھ سے ملاقات کی۔
بات چیت کے بعد انڈین وزارتِ دفاع نے بتایا کہ روسی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ روس کی دفاعی صنعت انڈیا کو دفاعی پیداوار میں خود کفیل بنانے میں تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
ولادیمیر پوتن نے انڈیا کے دورے سے ایک دن پہلے صدر ٹرمپ کے اعلیٰ نمائندوں سے یوکرین جنگ ختم کرنے کے ممکنہ امن معاہدے پر بات چیت کی تھی جس میں کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔
انڈیا نے یوکرین جنگ کے لیے روس کی مذمت سے گریز کیا ہے اور بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے امن کی اپیل کی ہے۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ اس کے روس کے ساتھ تعلقات کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ مغربی ممالک خود بھی ضرورت پڑنے پر روس کے ساتھ کاروبار جاری رکھتے ہیں۔