کنگ سعود یونیورسٹی ریاض میں جاری پانچویں سعودی فیسٹ فوڈ فیسٹیول میں تھائی لینڈ کے پویلین سے نکلنے والی مہک ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور لوگ جوق درجوق پویلین کی طرف جا رہے ہیں۔
چھ دسمبر تک جاری رہنے والا یہ فیسٹیول، کلنری آرٹس کمیشن نے منظم کیا ہے جس میں دونوں ممالک کی کھانے کی ڈِشوں کی کہانیاں ایک دوسرے کی ثقافت کو باہم ملا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
نجران میں موسم سرما کے پکوان جو ذائقے میں ثانی نہیں رکھتےNode ID: 897350
اس سال کے فیسٹیول میں تھائی لینڈ اعزازی مہمان کے طور پر شریک ہے۔
طباخی آرٹس کمیشن کی چیف ایگزیکیٹو آفیسر (سی ای او) میادہ بدر کا کہنا ہے کہ تھائی لینڈ کی شرکت سے ’سعودی عرب اور تھائی لینڈ کے درمیان ثقافتی تبادلے میں سہولت پیدا ہوئی ہے جو کھانے پکانے کے فن کے ذریعے اس تبادلے کو بڑھانے کے ہمارے مشن کی عکاس ہے۔‘
انھوں نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سعودی کھانوں کے ساتھ، تھائی لینڈ کے پکوانوں کی میزبانی کرنے سے، یہاں آنے والوں کو معلوم ہوگا کہ دو ثقافتوں کی ڈشوں کے درمیان کیا مشترک ہے اور کیا مختلف۔‘

پویلین میں تھائی شیف اپنے ملک کے پکوان تیار کرنے کا لائیو مظاہرہ بھی کر رہے ہیں جن میں وہاں کی روایتی مسالے دار ڈشیں ہیں۔ ان میں ٹوم یم سُوپ اور تھائی نوڈلز بھی شامل ہیں۔
ساتھ ہی تھائی شیف تفصیل کے ساتھ بتا رہے ہیں کہ یہ ڈشیں کیسے تیار کی جاتی ہیں اور ان کے لازمی اجزا کیا ہوتے ہیں۔ وہ ان ڈشوں کو مہمانوں کے سامنے پیش کرنے کے ’راز‘ بھی لوگوں کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔
ان پکوانوں کی تیاری کے ساتھ روایتی رقص اور میوزک کی پرفارمینسز، ثقافتی تجربے کی تکمیل میں سونے پر سہاگے کا کام کر رہی ہیں۔

میادہ بدر کا کہنا تھا کہ ’کھانوں کے ذریعے بین الثقافتی مکالمہ، سمجھ بوجھ اور باہمی احترام کے لیے پُل کا کام کرتا ہے۔ ہم اپنے تمام ایونٹس میں اسی کے حصول کی کوششیں کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کھانوں کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے طرح طرح کے طریقے، خواہ وہ مقامی ہوں یا بین الاقوامی، مختلف ثقافتوں کو گلے لگانے کے ہمارے وژن سے ہم آہنگ ہیں جس میں ہم مقامی شناخت کو محفوظ رکھتے ہیں۔‘
دریں اثنا سعودی عرب کا فوڈ ہیرٹِج زون بھی یہاں آنے والوں کو کھانے پکانے کے قومی سفر پر ساتھ لے کر چل رہا ہے۔ مختلف سیکشن، مملکت کے مختلف علاقوں کی نمائندگی کر رہے ہیں اور روایتی کھانوں کے ایک وسیع سلسلے کی نمائش میں مصروف ہیں جو جغرافیائی اور ثقافتی تنوع کو نمایاں کرتا ہے۔

جریش، مفتاح، کبسہ، حنینی اور دیگر ڈشیں، سعودی پکوانوں میں پائی جانے والی وسعت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مقامی پیداوار جس میں روایتی مسالے، زیتون کا تیل اور کھجوریں شامل ہیں، وہ بھی یہاں نمایاں ہوکر دکھائی دیتی ہیں۔
دستکاری کے سیکشن میں ہنر مند فنکار، روایتی سدُو بُنائی اور مٹی کے برتن بنانے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
یہ مظاہرے محض تفریح کی غرض سے نہیں ہیں بلکہ سیکشن میں آنے والوں کے لیے سعودی ہنر سیکھنے کا ایک قابلِ قدر موقع بھی ہیں۔

میادہ بدر کے بقول ’یہ ایونٹ مقامی اور بین الاقومی طور پر سعودی طباخی کے ورثے کو محفوظ کرنے کی ہماری کوششوں کا جزوِ لازم ہے۔ اس کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ ہم کھانے پکانے کے ورثے کو توازن کے ساتھ لوگوں کے سامنے کیسے پیش کرتے ہیں جس میں کھانوں کے اصل جوہر اور ان میں لائی جانے والی جدت، دونوں کا امتزاج نظر آئے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’طباخی آرٹس کمیشن ایک پائیدار حکمتِ عملی کو ترتیب دینے پر کام کر رہا ہے جس سے مقامی دستکاروں اور پروڈیوسرز کی معاونت ہوگی اور ساتھ ساتھ فیسٹیول میں شرکت کو ایک طویل شراکت داری میں بدلنے میں بھی مدد ملے گی۔‘
’ہنی میوزیم‘ سائنسی اور ثقافتی مرکز کے طور پر سامنے آ رہا ہے جو لوگوں کو مملکت میں اپنی پیداوار کے بارے میں مطلع بھی کر رہا ہے اور مختلف اقسام کا شہد حاصل کرنے کے عمل کو بھی واضح کر رہا ہے۔













