Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابق حکومت نے اسلام آباد میں کینسر ہسپتال کی تعمیر کیوں روکی؟

کینسر ہسپتال سے سالانہ سات ہزار غریب مریضوں نے مستفید ہونا تھا (فوٹو: پمز ہسپتال فیس بک)
سابق وزیراعظم عمران خان نے برسراقتدار آنے کے ایک سال کے اندر اسلام آباد اور ملحقہ علاقوں کی غریب آبادی کے لیے جدید سہولیات سے لیس کینسر ہسپتال کی تعمیرروک دی تھی، جسے موجودہ حکومت وزارت منصوبہ بندی کی منظوری کے بعد دوبارہ شروع کرنے پر غور کر رہی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق 200 بیڈز پر مشتمل ایک کینسر ہسپتال کا منصوبہ مسلم لیگ نواز کے دورِ حکومت میں منظور ہوا تھا جس کے لیے حکومت نے پی ایس ڈی پی کے تحت پانچ ارب روپے بھی منظور کیے تھے۔
اس کینسر ہسپتال سے سالانہ سات ہزار غریب مریضوں نے مستفید ہونا تھا تاہم پی ٹی آئی حکومت نے جنوری 2019 میں قدرے خاموشی سے منصوبہ ختم کر دیا تھا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس منصوبے کی پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر عائشہ عیسانی نے تصدیق کی کہ منصوبہ لانچنگ کے لیے مکمل تیار تھا اور پمز کے احاطے میں اس کے لیے جگہ مختص کرکے عمارت کی تعمیر کے لیے پی ڈبلیو ڈی نے ڈیزائن بھی تیار کر لیا تھا اور نقشے بھی منظور کر لیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کے لیے کنسلٹنٹس بھی ہائیر کر دیے گئے تھے جب انہیں پتا چلا کہ منصوبہ ہی ختم کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ عیسانی کے مطابق سرکاری کینسر ہسپتال کے پی سی ون میں طے تھا کہ اس میں ریڈیالوجی، ایم آر آئی اور سی ٹی سکین جیسی تمام جدید سہولیات مہیا کی جائیں گی۔
تاہم اس اچانک فیصلے کی وجوہات کے حوالے سے اردو نیوز کے سوال پر انہوں نے مزید تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک سرکاری ملازم ہیں اور ’کسی قسم کے سیاسی معاملات میں نہیں پڑنا چاہتیں۔‘
اردو نیوز کو دستیاب بجٹ دستاویزات کے مطابق منصوبے کے لیے سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے 1998 ملین روپے کی رقم سال 19-2018 کے بجٹ میں مختص کی تھی۔

پی ٹی آئی حکومت نے جنوری 2019 میں قدرے خاموشی سے کینسر ہسپتال کا منصوبہ ختم کر دیا تھا (فوٹو: شوکت خانم ہسپتال ٹوئٹر)

اپریل 2018 میں انگریزی اخبار دی نیوز میں شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے عمران خان کی جانب سے لاہور اور پشاور میں کینسر ہسپتالوں کی تعمیر کے بعد اسلام آباد میں سرکاری سطح پر ایک کینسر ہسپتال کی تعمیر کے منصوبے کی منظوری دی ہے جس پر پانچ عشاریہ ایک پانچ ارب روپے کی لاگت آئے گی۔
پھر اگست میں برسراقتدار آنے والے وزیراعظم عمران خان نے خود بھی دسمبر 2018 میں ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں وفاق اور صوبہ خیبرپختونخواہ کے صحت کے حکام نے شرکت کی تھی۔ اجلاس کے بعد جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں 200 بیڈز پر مشتمل پہلے کینسر ہسپتال کا منصوبہ منظور کر لیا گیا ہے۔
تاہم اچانک 17جنوری 2019 کو سرکاری ایجنسی اے پی پی نے خبر دی کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں علیحدہ کینسر ہسپتال کی تعمیر کا منصوبہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس کے بجائے  پمز ہسپتال میں کینسر کے مریضوں کے لیے مختص بیڈز کی تعداد بڑھانے اور متعلقہ عملہ بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں کینسر ہسپتالوں اور سہولیات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے سہولیات ناکافی ہیں۔
ایک لاکھ مریضوں کے لیے کینسر کے صرف دو ریڈیالوجسٹ اور نیوکلئیر میڈیسن کے صرف 14 ڈاکٹر ہیں جبکہ 128 سرجن موجود ہیں۔ 

نوشیروان برکی کا کہنا تھا کہ پمز میں کینسر کے حوالے سے درکار مہارتیں موجود نہیں تھیں (فوٹو: شوکت خانم ہسپتال ٹوئٹر)

پاکستان میں صحت کے سرکاری اعداد و شمار کے ادارے ہیلتھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ملک میں سالانہ پونے دولاکھ کے قریب کینسر کے نئے کیسز سامنے آتے ہیں اور سالانہ ایک لاکھ مریض جان سے چلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں کینسر کے علاج کے کُل مراکز 27 ہیں جن میں صرف ایک بڑا ہسپتال ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق پاکستان کو ملک میں کینسر کے علاج کی سہولیات کی شدید کمی کا سامنا ہے اور سال میں صرف 10 سے 15 ہزار کے قریب کینسر کے مریضوں کا ہی علاج ممکن ہے۔
خود سابق وزیراعظم عمران خان پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر میں پہلے کینسر ہسپتال شوکت خانم ہسپتال کے بانی ہیں جسے نوے کی دہائی میں مکمل کیا گیا اس کے بعد عمران خان پشاور میں شوکت خانم ہسپتال 2015 میں بنا چکے ہیں۔
مگر اس کے باجود باقی مریضوں کے لیے سہولیات کی کمی ہے۔ پڑوسی ملک انڈیا میں کینسر کے ساڑھے 300 کے قریب ہسپتال ہیں۔
ہسپتال کی تعمیر روکنے پر پی ٹی آئی کا موقف
امریکہ میں موجود سابق وزیراعظم عمران خان کی صحت کے حوالے سے ٹاسک فورس کے اس وقت کے انچارچ نوشیروان برکی کے مطابق پمز میں ہسپتال کی تعمیر روکنے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام آباد کے کینسر ہسپتال کا کانسیپٹ غلط تھا۔ ’اس لیے ہم نے سفارش کی تھی کہ اسے نہ بنایا جائے اور حکومت نے اسے بند کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں کینسر کے حوالے سے درکار مہارتیں موجود نہیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پمز میں آن کالوجی یعنی کینسر کا کوئی وارڈ موجود نہیں تھا اس لیے ہم نے تجویز کیا تھا کہ پہلے یہاں وارڈ بنائیں پھر اس کو توسیع دیں۔‘
تاہم پمز ہسپتال کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ڈاکٹر برکی کے دعوے سے اختلاف کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ پمز میں آن کالوجی کا شعبہ 15 سال سے بھی زائد عرصے سے موجود ہے اور اس کے لیے بیڈز پہلے جنرل وارڈز میں مختص تھے پھر نیفرالوجی اور آن کالوجی کا وارڈ علیحدہ کر دیا گیا ہے اور باقاعدہ کینسر کے ڈاکٹرز بھی ادارے میں موجود تھے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے سہولیات ناکافی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز کے ایک سوال پر ڈاکٹر برکی کا کہنا تھا کہ ’یہ کہنا درست نہیں کہ ہم شوکت خانم کے مقابلے پر کوئی اور ہسپتال نہیں بننے دینا چاہتے تھے، بلکہ پشاور کا شوکت خانم تو 2015 میں بن گیا تھا اور ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں زیادہ کینسر ہسپتال بنیں، کیونکہ ان کی ضرورت ہے، تاہم ہم چاہتے تھے پمز میں اس پر مرحلہ وار کام ہو۔‘
کینسر اسپتال کی بحالی پر غور کریں گے: قادر پٹیل
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر موجودہ حکومت کے وزیر صحت قادر پٹیل کا کہنا تھا کہ وہ سرکاری سطح پر اسلام آباد میں کینسر ہسپتال کی تعمیر روکے جانے کے معاملے کی چھان بین کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی منظوری ملی تو اس منصوبے کو دوبارہ سے بحال کر دیا جائے گا۔

شیئر: