Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشی بحران کے بعد لبنان میں پہلے پارلیمانی انتخابات، ’تبدیلی ضروری‘

لبنان کی غیریقینی صورتحال میں اضافہ اس وقت ہوا جب سنی رہنما سعد الحریری نے الیکشن کا بائیکاٹ  کر کے ایک خلا چھوڑ دیا (فوٹو: اے ایف پی)
لبنان میں معیشت کے زوال اور بیروت کی بندرگاہ پر دھماکے کے بعد پہلی بار پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انتخابات کے بارے میں اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ معاشی بحران کے ذمہ دار حکمرانوں کو ایک دھچکا لگانا چاہتے ہیں تاہم وہاں کسی بڑی تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں۔
2018 کے بعد ہونے والے اس پہلے پارلیمانی الیکشن کو ایک امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ آیا بھاری ہتھیاروں سے لیس ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملک میں اپنی پارلیمانی اکثریت کو برقرار رکھ سکے گی یا نہیں۔
خیال رہے کہ لبنان کے آخری الیکشن کے بعد سے ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے اور عالمی بینک نے اس بحران کا الزام لبنان کے حکمران طبقے پر لگایا ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عوامی غصہ اصلاح پسند امیدواروں کو کچھ نشستیں جیتنے میں مدد دے سکتا ہے۔ لیکن لبنان کے گروہ بندی پر مبنی سیاسی نظام میں وہاں طاقت کے توازن میں کسی بڑی تبدیلی کی توقعات کم ہیں۔
بیروت میں اپنے والد کے ہمراہ ووٹ دیتے ہوئے 57 سالہ نبیل چایا نے کہا کہ’لبنان (اس سے) بہتر کا مستحق ہے۔‘

الیکشن کا وقت قریب آتے ہی آزاد مبصرین نے خبردار کیا تھا کہ امیدوار فوڈ پیکجز اور ایندھن کے واؤچرز کے ذریعے ووٹ خریدیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

’یہ(ووٹ) میرا حق نہیں ہے بلکہ یہ میرا فرض ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس سے فرق پڑتا ہے۔ لوگوں میں بیداری آئی ہے۔ ابھی بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی؟ لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی ضروری ہے۔‘
پہلی بار ووٹ ڈالنے والے 35 سالہ فادی رمضان نے کہا کہ وہ آزاد امیدوار کو منتخب کر کے ’سیاسی نظام کو تمانچہ‘ رسید کرنا چاہتے ہیں۔
شیعہ حزب اللہ تحریک کے گڑھ جنوبی لبنان سے ایک ووٹر رعنا غریب نے کہا کہ لبنان کی معاشی تباہی میں وہ اپنا پیسہ کھو چکی ہیں لیکن پھر بھی اس گروپ کو ووٹ دے رہی ہیں۔
یاتر نامی گاؤں میں ووٹ کاسٹ کرنے والی 30 سالہ رعنا غریب نے 2000 میں اسرائیلی فوج کو جنوبی لبنان سے بھگانے کا سہرا حزب اللہ کے سر باندھتے ہوئے کہا ’ہم ایک نظریے کو ووٹ دیتے ہیں، پیسے کو نہیں۔‘
لبنان کے پارلیمانی انتخابات کی پولنگ شام سات بجے تک جاری رہے گی اور توقع کی جا رہی ہے کہ رات کو اس کے نتائج بھی سامنے آ جائیں گے۔
واضح رہے کہ لبنان 1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد سب سے سنگین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔اس کی کرنسی کی قدر 90 فیصد سے زیادہ گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے اور  اس کی تقریباً تین چوتھائی آبادی غربت کی دلدل میں پھنس چکی ہے۔
2018 کے الیکشن میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں جن میں صدر مائیکل عون کی فری پیٹریاٹک موومنٹ نامی مسیحی جماعت بھی شامل تھی، نے پارلیمنٹ کی 128 نشستوں میں سے 71 پر کامیابی حاصل کی تھی۔
ان نتائج نے لبنان کو شیعہ مسلم قیادت والے ایران کے زیادہ قریب کر دیا تھا جس سے سنی مسلم حکمرانی والے سعودی عرب کے اثر و رسوخ کو دھچکا لگا تھا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عوامی غصہ اصلاح پسند امیدواروں کو کچھ نشستیں جیتنے میں مدد دے سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

لبنان میں جاری حالیہ غیر یقینی صورتحال میں اضافہ اس وقت ہوا جب سنی رہنما سعد الحریری نے الیکشن کا بائیکاٹ  کر کے ایک خلا چھوڑ دیا جسے اب حزب اللہ کے اتحادی اور مخالفین دونوں پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
الیکشن کا وقت قریب آتے ہی آزاد مبصرین نے خبردار کیا تھا کہ امیدوار فوڈ پیکجز اور ایندھن کے واؤچرز کے ذریعے ووٹ خریدیں گے جو معاشی تباہی کا شکار خاندانوں کو جاری کیے گئے ہیں۔
ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہےکہ وزیراعظم نجیب میکاتی جو ایک ٹائیکون ہیں اور بطور وزیر اعظم اپنے تیسرے دور میں خدمات انجام دے رہے ہیں، انہیں نئی حکومت بنانے کے لیے نامزد کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب نجیب میکاتی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگر انہیں جلد کابینہ کی تشکیل دینے کا یقین ہوا تو وہ وزیراعظم کے طور پر واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔

شیئر: