Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دل دا نئیں ماڑا۔۔۔ تیرا سدھو موسے والا‘

’او دل دا نئیں ماڑا۔۔۔ تیرا سدھو موسے والا۔۔۔‘ یہ جملہ سدھو موسے والا کے کئی گیتوں کا حصہ ہے۔ آج بھی یہ جملہ ان کے مداحوں کے کانوں میں گونج رہا ہوگا کہ ’وہ دل کا برا نہیں ہے، تیرا سدھو موسے والا۔‘
سدھو موسے والا نے دو کام کیے یا ان کاموں کا الزام ان پر عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے گیتوں میں ’سماج کی دقیانوسی روایات‘ کے خلاف آواز بلند کی اور دوسرا ’بندوق اور پرتشدد نظریات‘ کو فروغ دیا۔ 
دونوں باتیں غلط یا درست ہو سکتی ہیں لیکن ایک بات عیاں ہے کہ سدھو موسے والا کو اپنے اوپر اس بات کا مان تھا کہ وہ ’سیلف میڈ‘ ہیں، اس کا برملا اظہار ان کی گیتوں میں بھی ملتا تھا،  جو بیشتر وہ خود ہی لکھتے تھے۔
سماجی رویے، سیاست، مذہب اور ذات پات کے نام پر نفرت اور نفرتوں کے درمیان گھرے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک معمولی انسان نے نہ صرف انڈیا بلکہ بیرون ملک بھی اپنا مقام خود پیدا کیا، سدھو موسے والا کے بیشتر گیتوں کا مرکزی خیال یہی ہے۔ 
دوستوں کی خاطر جان دینے اور دشمن کے سامنے کھڑے ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے، موسیقی کے ذریعے اپنے حریفوں کو مخاطب کرنے کا فن وہ خوب جانتے تھے۔ 

موسے والا کی شہرت بھی ’گینگسٹر ریپ‘ فنکار کے طور پر تھی

پنجاب کے ضلع مانسہ کے ایک چھوٹے سے علاقے ’موسا‘ سے جنم لینے والے شبھ دیپ سنگھ سدھو نےاپنے آبائی گاؤں موسا کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر ’موسے والا‘ بن گئے، جو شہرت انہوں نے اتنی کم عمری میں حاصل کی ایسا جلوہ کم ہی نوجوان فنکاروں کو حاصل ہوتا ہے۔
ان کا تعلق پنجاب کے جس علاقے سے ہے وہ لہجے کے لحاظ سے ’ملوی‘ کہلاتا ہے جبکہ پنجابی زبان کے بیشتر معروف گلوکاروں کا تعلق ’ماجھی‘ اور ’دوآبی‘ علاقوں سے ہے، ملوی لہجہ بھی ان کے گیتوں میں ایک انفرادیت پیدا کرتا ہے، اپنے  گیت ’ملوا بلاک‘ میں انہوں نے اسی کہانی کو بیان کیا تھا۔ 
صرف 28 برس کی عمر میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے سدھو موسے والا کی زندگی تنازعات سے بھرپور تھی۔ انہیں تنازعات میں گھرے رہنے کی عادت ہوچکی تھی یا وہ ان سے لطف اٹھانا سیکھ چکے تھے۔ 
موسیقی اور گلوکاری کا آغاز انہوں نے کالج میں دور طالب علمی کے دوران ہی کیا تھا اور بعدازاں کینیڈا چلے گئے۔ ان کی شہرت بھی ’گینگسٹر ریپ‘ فنکار کے طور پر تھی اور وہ منفی طرز کی خبروں کی وجہ سے شہ سرخیوں میں بھی رہے۔ 
سدھو موسے والا کے بیشتر گیت بندوقوں اور پرتعیش زندگی کی کہانیاں بیان کرتے ہیں لیکن کچھ گیت ایسے بھی ہیں جن سے ان کے خیالات اور سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے گانے ’295‘ کے بغیر یہ تحریر نامکمل ہے۔ یہ گیت دراصل تعزیرات ہند کی دفعہ 295 سے متعلق ہے جو توہین مذہب کا قانون ہے۔
اسی طرح ‘سیلف میڈ‘ ‘سو ہائی‘، ’سیم بیف‘، ’ٹوچن‘، ’اسا جٹ، ’ڈیتھ‘،’سکیپ گوٹ‘، ’ٹبیاں والا پنڈ‘، ’گاڈ فادر‘ سمیت کئی ایسے گانے ہیں جس میں انہوں نے اپنی جہدوجہد اور ’سیلف میڈ‘ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ سدھو موسے والا کا ایک گیت ہے ’ہومی سائیڈ‘ اور اس کی ایک لائن ہے ’ٹو پاک نال ملدی اے راشی مٹھیا‘۔۔۔ یعنی ٹوپاک سے ہی سب کچھ ملتا ہے۔ سدھو موسے والا کے آئیڈیل ٹوپاک تھے۔ 
سدھو موسے والا اور ٹوپاک کی زندگی اور فن میں اتنی مماثلت ہے کہ اگر سدھو موسے والا کو پنجابی کا ٹوپاک شکور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ٹوپاک کو دنیا ایک عظیم ریپ گلوکار کے طور پر یاد کرتی ہے۔ وہ ایک امریکی گلوکار تھے جنہوں اپنے گیتوں میں زندگی، سماج اور سماج کے زندگی پر اثرات کے بارے میں بات کی اور موسیقی کے میدان میں سماجی ناانصافیوں اور عدم مساوات کے خلاف آواز بن پر ابھرے۔ 

موسے والا کا آخری گیت بظاہر ٹوپاک کی موت سے متعلق تھا 

سات ستمبر 1996 کو  امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں صرف 25 سال کی عمر میں ٹوپاک کو گولیاں ماری گئی تھیں، انہیں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں 13 ستمبر1996 کو ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ 
سدھو موسے والا کی زندگی اور اس کا اختتام بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ مانسہ ضلع میں ’موسا‘ گاؤں جاتے ہوئے ان پر چند نامعلوم افراد نے فائرنگ کی، انہیں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن ان کی جان نہ بچائی جا سکی۔ 
سدھو موسے والا کی عمر 28 سال اور ٹوپاک 25 سال کے تھے جب انہیں گاڑی چلاتے ہوئے گولیاں ماری گئیں۔ ان  دونوں  فنکاروں کا کم عمری کا شہرت کی بلندی کو چھونا اور دونوں کی جوانی میں موت۔ دونوں نے بہت بڑی تعداد میں مداح بنائے اور اپنا موسیقی کی دنیا میں وہ مقام حاصل کیا وہ کم ہی فنکاروں کی نصیب میں آیا ہے۔ 
سدھو موسے والا کا آخری گیت ’دی لاسٹ رائیڈ‘ بھی ٹوپاک کو خراج تحسین تھا جس میں وہ کہتے ہیں ’چوبر دے چہرے اتے نور دسدا، نی ایدا اٹھو گا  جوانی چ جنازہ مٹھیے‘ یعنی اس کے چہرے کا نور بتا رہا ہے کہ اس کا جوانی میں جنازہ اٹھے گا۔ 

سدھو موسے والا نے 2021 میں کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی

تنازعات میں گھری زندگی 
سدھو موسے والا کے گیتوں میں بندوقوں کا ذکر بے بہا ملتا ہے اور ان پر تشدد کو ہوا دینے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔  جٹ برادری کا ذکر تقریباً ہر گیت میں ہے۔ ان کا ایک گانا ’جٹی جیونے مور ورگی‘ اٹھارویں صدی کی سکھ جنگجو خاتون مائی بھاگو سے متعلق تھا، جس میں ان کی بہادری کو تو خراج تحسین پیش کیا گیا لیکن اس گیت پر پرتشدد خیالات کو بڑھاوا دینے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ اس گانے کی وجہ سے ان پر پرتشدد نظریات اور سکھ برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور سکھ جنگجو کو منفی انداز میں پیش کرنے پر کئی مقدمات بھی ہوئے تاہم انہوں نے اس پر شرمندگی کا اظہار کیا اور معافی مانگ لی تھی۔ 
سیاسی میدان میں قدم رکھنے سے قبل سدھو موسے والا کے سب سے بڑے حریف گلوکار کرن اوجلہ تھے، جو انہی کے طرز پر گانے گاتے ہیں۔ گلوکار کرن اوجلہ پنجابی موسیقی کا اہم نام ہے اور دونوں فنکاروں کے درمیان گیتوں، سوشل میڈیا اور لائیو پرفارمنسز کے دوران بھی اس کا برملا اظہار ہوتا رہا ہے۔ ان کے مداحوں میں بھی واضح تقسیم دیکھی جا سکتی جو اکثر سوشل میڈیا پر اپنے اپنے پسندیدہ گلوکار کے حمایت میں محاذ سنبھالے ہوتے ہیں۔ 

سدھو موسے والا پر گن کلچر کو فروغ دینے کا الزام کیا جاتا تھا 

مئی 2020 میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران موسے والا کی دو ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں وہ کلاشنکوف اور ذاتی پستول کے ساتھ دکھائی دیے، ان پر آرمز ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا، اسی سال ایک گانے ’گن وچ پنج گولیاں‘ میں بندوق اور پرتشدد خیالات کو پروان چڑھانے کے الزام میں پنجاب پولیس نے ان کے اور گلوکار منکریت اولکھ کے مقدمہ درج کیا تاہم سدھو موسے والا نے پولیس کو بیان دیا کہ یہ گانا انہوں نے نہ لکھا یا ریلیز کیا، یہ کسی اور گلوکار کا گانا تھا جسے وہ دوستوں کے ہمراہ گا رہے تھے اور اس کی ویڈیو لیک ہوگئی۔
جولائی 2020 میں ان کا گیت ’سنجو‘ نے بھی ایک نئے تنازع کو جنم دیا جس میں انہوں نے اپنا موازنہ بالی وڈ اداکار سنجے دت سے کیا تھا، ان گانے کا مرکزی خیال بھی یہی تھا کہ جو جیل جاتا ہے وہی کھرا انسان ہے۔ 
اسی سال دسمبر میں انہوں نے ’پنجاب: مائی مدر لینڈ‘ کے عنوان سے گیت جاری کیا جس میں مبینہ طور پر خالصتانی رہنما جرنیل سنگھ بھنڈروالا کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مبینہ طور پر اس گانے کی ویڈیو میں خالصتانی رہنما بھرپور سنگھ بلبیر کی 1980 کی دہائی کی ایک تقریر کے کچھ مناظر بھی شامل تھے۔ 

موسے والا اور بگ برڈ ایک ساتھ  کئی ہٹ گانے پیش کیے

سیاست میں آنے کے بعد بھی مقدمات اور تنازعات ان کا پیچھا کرتے رہے۔ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں گھر گھر انتخابی مہم پر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر پھر ایک مقدمے کا سامنا کیا۔ 
سدھو موسے والا پنجاب اور دہلی میں کسانوں کی تحریک کا چہرہ بھی بنے اور کسانوں سے متعلق قوانین میں ترامیم پر کھل کر مخالفت کی تھی۔ 
2021 میں انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی، اپنے آبائی شہر سے ریاستی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا اور عام آدمی پارٹی کے امیدوار نے انہیں شکست دی۔ اس شکست کے بعد ان کا گانا ’سکیپ گوٹ‘ سیاسی صورتحال اور ان کے اوپر عائد کیے گئے الزامات کا ایک جواب تھا۔ 
پاکستان آنے کا وعدہ
کچھ عرصہ قبل سدھو موسے والا نے ایک کنسرٹ میں پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں وہ کنسرٹ کے سٹیج پر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وہ وعدہ کرتے ہیں وہ اسی سال پاکستان آئیں گے، پہلے لاہور اور پھر اسلام آباد جائیں گے۔ 
سدھو موسے والا پاکستان میں بھی مقبول تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی موت کے دوسرے روز بھی ٹوئٹر پر ’سدھو موسے والا‘ کا نام ٹاپ ٹرینڈ ہے۔ 

شیئر: