Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منکی پاکس وبا کی شکل اختیار نہیں کرے گا: عالمی ادارہ صحت

پہلی مرتبہ منکی پاکس کی شناخت 1958 میں ہوئی تھی۔ (فوٹو: روئٹرز)
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ منکی پاکس وبا کی شکل اختیار نہیں کرے گا۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پیر کو ہونے والے ایک پبلک سیشن میں منکی پاکس کے لیے عالمی ادارہ صحت کی ماہر ڈاکٹر روسامنڈ لوئس نے کہا ہے کہ ان کو توقع نہیں کہ اب تک منکی پاکس کے رپورٹ ہونے والے سینکڑوں کیسز وبا کی شکل اختیار کریں گے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ منکی پاکس کے پھیلاؤ کے بارے میں اب بھی زیادہ معلومات دستیاب نہیں کہ یہ کیسے پھیلتا ہے۔ ’یہ معلوم نہیں کہ آیا منکی پاکس جنسی تعلق یا قریبی تعلق کے ذریعے پھیلتا ہے۔ عام آبادی کے لیے اس کا خطرہ کم ہے۔‘
روسامنڈ لوئس کے مطابق دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں رپورٹ ہونے والے زیادہ تر کیسز ہم جنس پرست اور دو جنسی رجحانات رکھنے والے افراد میں پائے گئے ہیں۔ ’اس بات پر زور دینا اہم ہے تاکہ سائنسدان اس مسئلے پر مزید تحقیقات کر سکیں اور خطرے سے دو چار لوگ احتیاط برت سکیں۔‘
ڈاکٹر روسامنڈ نے خبردار کیا کہ اس بیماری کا ممکنہ خطرہ ہر کسی کو ہو چاہے ان کا جنسی رجحان جو بھی ہو۔
دیگر ماہرین نے اس بات کے حادثاتی ہونے کی نشاندہی کی ہے کہ یہ بیماری پہلی بار میں ہم جنس پرستوں اور دو جنسی رجحانات والے افراد میں پائی گئی۔ ان کے مطابق اگر منکی پاکس پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ دیگر افراد میں بھی پھیل سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا تھا کہ 23 ایسے ممالک جہاں پہلے منکی پاکس کے کیسز رپورٹ نہیں ہوئے تھے، وہاں اس کے 250 سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔

منکی پاکس کےاثرات پانچ سے تین ہفتوں میں نظر آتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

منکی پاکس کا شکار لوگوں کو اکثر بخار، جسم میں درد، سردی لگنے اور تھکن کی شکایات رہتی ہیں۔ اس وائرس سے زیادہ بیمار ہو جانے والے لوگوں کو اکثر شدید خارش بھی محسوس ہوتی ہے اور جسم کے مختلف حصوں پر دانے نکل آتے ہیں۔
اگر کوئی اس بیماری کا شکار ہو جائے تو اس کے اثرات پانچ سے تین ہفتوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور عام طور پر اس سے متاثرہ افراد دو سے چار ہفتوں کے درمیان بغیر ہسپتال منتقل ہوئے صحتیاب ہوجاتے ہیں۔
منکی پاکس جنگلی جانوروں خصوصاً زمین کھودنے والے چوہوں اور لنگوروں میں پایا جاتا ہے اور اکثر ان سے انسانوں کو بھی منتقل ہو جاتا ہے۔ اس وائرس کے زیادہ تر کیسز ماضی میں افریقہ کے وسطی اور مشرقی ممالک میں پائے جاتے تھے جہاں یہ بہت تیزی سے پھیلتا تھا۔
پہلی مرتبہ اس بیماری کی شناخت 1958 میں اس وقت ہوئی تھی جب ایک تحقیق کے دوران کچھ سائنسدانوں کو بندروں کے جسم پر ’پاکس‘ یعنی دانے نظر آئے تھے۔ اسی لیے اس بیماری کا نام ’منکی پاکس‘ رکھ دیا گیا تھا۔

شیئر: