Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عثمان بزدار کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب بحال کیا جائے: اختلافی نوٹ

جسٹس محمد ساجد محمود سیٹھی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے (فوٹو: اے پی پی)
لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق تحریک انصاف کی درخواست پر فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ 
لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جمعے کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے اجلاس بلانے کی ہدایت کی ہے جس میں 25 منحرف ارکان کے ووٹ شمار کیے بغیر ووٹ گننے کی ہدایت کی ہے۔
پانچ رکنی بنچ میں شامل جسٹس محمد ساجد محمود سیٹھی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں  حمزہ شہباز کا بطور وزیراعلیٰ نوٹیفیکیشن اور ان کی حلف کو غیر قانونی اور خلاف ضابطہ قرار دیا ہے۔
انہوں اپنے اختلافی نوٹ میں عثمان بزدار کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب بحال کرنے کی اختلافی رائے دی ہے۔
ساتھ میں انہوں نے یہ رائے بھی دی کہ اس فیصلے سے حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ کیے گئے فیصلے متاثر نہیں ہوں گے۔ ‘صوبے کے انتظامیہ اور عوامی مفاد کو دیکھتے ہوئے حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ اور کابینہ کے 30 اپریل سے لے کر آج تک کے فیصلے برقرار رہیں گے اور اس عدالتی فیصلے سے اثر انداز نہیں ہوں گے۔‘
اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے جسٹس ساجد محمود نے لکھا ہے کہ ’ یہ واضح ہے کہ تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا اس لیے دوبارہ گنتی کی ضرورت نہیں ہے اور ڈپٹی سپیکر وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا دوسرا مرحلہ کروائیں اور  موجودہ ممبران کی اکثریت حاصل کرنے والے امیدوار سے گورنر پنجاب وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف لیں۔ 
جسٹس ساجد محمود نے جمعے کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے سے بھی اختلاف کیا اور لکھا کہ چونکہ صوبے کے دور دراز علاقوں سے ممبران نے پہنچنا ہوتا ہے اس لیے یہ مناسب ہوگا کہ اجلاس دو جولائی کو طلب کیا جائے۔ 
انہوں نے حمزہ شہباز کا بطور وزیراعلیٰ تقرر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’25 ارکان کا ووٹ نکال کر حمزہ شہباز کو 172 ارکان کی حمایت حاصل ہے اس لیے آئین کے آرٹیکل 130 (4) کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب نہیں تعینات ہو سکتے اور وزیراعلیٰ آفس میں ایک ’سٹرینجر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا وزیراعلیٰ برقرار رہنا انہیں  دیگر امیدواران کے مقابلے میں سیاسی فائدہ دیتا ہے۔‘

شیئر: