Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان 2018 سے بھی زیادہ مقبول ہو گئے ؟

عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کا محرک امریکی سازش قرار دے کر ملک بھر میں مہم شروع کی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
کرکٹ کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو ابتدا میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 
تاہم 22 سال بعد 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں ان کی جماعت پاکستان کی مقبول ترین جماعت بن کر ابھری اور وہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہو گئے۔   
اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان جس طرز حکمرانی کی بات کرتے تھے اس پر عمل نہیں کر پائے اور یوں ان کی مقبولیت میں کمی آتی گئی۔ لیکن رواں سال کے اوائل میں حالات نے پھر پلٹا کھایا اور اپوزیشن نے ان کی مدت اقتدار ختم ہونے سے ڈیڑھ سال پہلے ہی عدم اعتماد کے ذریعے انہیں حکومت سے الگ کر دیا۔ 
عمران خان نے اس تحریک عدم اعتماد کا محرک امریکی سازش قرار دے کر ملک بھر میں امریکہ مخالف مہم شروع کی جس کے بعد ان کی مقبولیت میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور اس وقت تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ عمران خان ملک کے مقبول ترین سیاسی قائد ہیں۔  
اس کی ایک مثال عمران خان کے حامی رواں ماہ ہونے والے پنجاب کے ضمنی انتخابات کو قرار دیتے ہیں جن میں ان کی جماعت نے 20 میں سے 15 نشستیں جیتی ہیں۔  
سنہ 2018 میں حکومت بنانے کے بعد پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو شکست ہوئی تھی۔
علاوہ ازیں صوبہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف جن اضلاع میں مضبوط سمجھی جاتی تھی وہاں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم اقتدار ختم ہونے کے بعد ملک بھر میں تمام ضمنی انتخابات تحریک انصاف کی مقبولیت کی طرف ہی اشارہ دیتے ہیں۔  
لیکن کیا عمران خان کی مقبولیت 2018 کے عام انتخابات سے بھی بڑھ چکی ہے جب انہوں نے اکثریت حاصل کر کے دو صوبوں اور مرکز میں حکومت بنائی تھی؟  

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان نے پنجاب کے ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران بھرپور جلسے کیے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

’عمران خان کی پوزیشن 2018 کے عام انتخابات سے بہتر معلوم ہوتی ہے‘  
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں ’سیاسی جماعتوں کی مقبولیت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے یہ سٹاک ایکسچینج کی طرح ہے۔ عدم اعتماد سے قبل تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی اپنے حلقوں میں جانے سے گھبرا رہے تھے۔ جن ارکان نے عمران خان سے بغاوت کی وہ سمجھ رہے تھے کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر وہ الیکشن نہیں جیت سکتے لیکن تحریک عدم اعتماد کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور ان کے بیانیے پر لوگوں نے کان دھرے ہیں۔ اس وقت عمران خان 2018 کے مقابلے میں بہتر پوزیشن پر معلوم ہوتے ہیں۔‘  
تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق ’عمران خان کی مقبولیت میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان اس وقت پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مقبول ترین لیڈر بن چکے ہیں۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’پنجاب کے ضمنی انتخابات میں جو جلسے انہوں نے کیے اور اس پر جس طرح کا عوامی رد عمل آیا ہے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ایسی پذیرائی نہیں ملی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت ان کے سیاسی حریف الیکشن نہیں کروانا چاہتے کیونکہ اگر ملک میں اس وقت انتخابات ہوئے تو اس کا نتیجہ وہی ہوگا جو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ہوا ہے۔‘  
’عمران خان مہنگائی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکے ہیں‘
مجیب الرحمن شامی نے عمران خان کے مقبولیت میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’مہنگائی اور معاشی مشکلات کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیا جارہا تھا لیکن جب سے حکومت بدلی ہے تو مہنگائی میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین بھی مہنگائی پر قابو نہیں پا سکے اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہنگائی بڑھنے میں غلطی عمران خان کی نہیں تھی غلطی کوئی اور تھی اور جو ان کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیا جارہا تھا وہ اس سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔‘  
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’عمران خان نے جو غیر ملکی سازش کا بیانیہ اختیار کیا ہے اس نے اپنا اثر ڈالا ہے اور سیاسی منظر نامے پر اپنا رعب جمانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کی اپنی شخصیت بھی ہے۔‘   

تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کے مطابق عمران خان سیاسی منظر پر اپنا رعب جمانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ ‘اس وقت ملک میں ایسی کوئی شخصیت ملک موجود نہیں جو اُن کا سیاسی مقابلہ کر سکے۔ نواز شریف لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں ان کو مقدمات کا سامنا کرنا ہے۔ وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے مہم نہیں چلا سکتے۔ شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں اس لیے وہ بھی مہم نہیں چلا سکتے۔ اس وقت سارا دباؤ مریم نواز پر ہے اور مریم نواز صلاحیت رکھنے کے باوجود عمران خان کے مقابلے میں نہیں، ان کی سیاسی عمر بھی کم ہے۔‘  
عمران خان کب تک اپنی مقبولیت برقرار رکھ پائیں گے؟   
رسول بخش رئیس کے خیال میں ’عمران خان کے لیے آسان ہو چکا ہے کہ وہ اپنا بیانیہ قائم رکھیں۔ اس کی ایک وجہ تو ان کی اپنی شخصیت ہے اور دوسری بڑی وجہ وہ اس وقت اقتدار سے باہر ہیں۔ آصف علی زرداری اور شریف خاندان پر عوام کا وہ اعتماد نہیں جو عمران خان پر ہے۔ ‘  
انہوں نے کہا کہ ’عوام میں غربت بڑھ رہی ہے، ملک کی معیشت تباہ ہو رہی ہے، ادارے کام نہیں کر رہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ عوام تو اس کی بنیادی وجہ سیاستدانوں کے کردار کو ہی قرار دے رہی ہے، ایسے میں عمران خان کا کردار ایسا ہے جس پر عوام کو یقین ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کی طرح کرپٹ نہیں۔ عوام جانتے ہیں جو کیسز آصف علی زرداری اور نواز شریف پر قائم ہوئے ہیں کیا انہوں نے کچھ غلط کام نہیں کیا؟ یہ سب ایسے جواز ہیں جو عمران خان کو اپنے سیاسی حریفوں کے مقابلے میں مقبول ترین بناتے ہیں۔‘  
مجیب الرحمن شامی کے مطابق ’اس وقت کوئی شبہ نہیں کہ سیاسی منظر پر اپنا رعب جمانے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن اپنی مقبولیت کب تک برقرار رکھ پائیں گے اس کا جواب ابھی تلاش کرنا مشکل ہوگا۔‘  

شیئر: