Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا چودھری شجاعت حسین کو پارٹی صدارت سے ہٹایا جا سکتا ہے؟

چودھری شجاعت کے صاحبزادے کا کہنا ہے کہ ’چودھری شجاعت ہی ق لیگ کے صدر ہیں‘ (فوٹو:اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس وقت پاکستان مسلم لیگ ق کے صوبائی صدر چودھری پرویز الٰہی وزیراعلٰی ہیں جنہیں تحریک انصاف نے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔
پرویز الٰہی کے وزارت اعلٰی کا منصب سنبھالنے کے پہلے ہی روز ان کی جماعت ق لیگ نے ایک غیر معمولی اجلاس طلب کر کے پارٹی کے صدر چودھری شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ کو عہدے سے ہٹانے کا دعویٰ کیا۔ 
چودھری شجاعت کا موقف ہے کہ قانونی طورپر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ پارٹی کے پنجاب کے جنرل سیکرٹری کامل علی آغا نے نئے صدر کے چناؤ کے لیے پارٹی کے انتخابات 10 روز کے اندر منعقد کرنے کے اعلان کیا ہے۔
کامل علی آغا نے پارٹی کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’شق 118 اور 119 کے تحت اگر صدر پارٹی کے امور چلانے سے قاصر ہوں تو جنرل کونسل ان کو ہٹا سکتی ہے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کامل علی آغا نے کہا کہ ’پارٹی صدر کو ہٹانا ایک قانونی عمل ہے اور پارٹی کی موجودہ صورت حال میں چودھری شجاعت کی صحت آڑے آ رہی تھی جس سے پارٹی کے اندر بہت زیادہ تناؤ تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وہ (چودھری شجاعت حسین) ایک دن کوئی حکم دیتے تو دوسرے دن کوئی، جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر اضطراب پیدا ہوا۔ انہوں نے اپنے پارٹی کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ دینے سے بھی اراکین کو روکا جو عجیب بات تھی۔ اس کے بعد بالآخر پارٹی نے ان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا اور یہ سب اتفاق رائے سے ہوا ہے۔‘  
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے آئین ہوتے ہیں اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے اندر پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے سے متعلق اپنا اپنا طریقہ کار ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق ہر پارٹی کے اندر صدر سمیت عہدیداروں کو ہٹانے اور منتخب کرنے طریقے موجود ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پارٹی کے آئین کی دستاویز نہ تو پارٹی کی ویب سائیٹ پر دستیاب ہے اور نہ ہی پارٹی آفس میں (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب چودھری شجاعت حسین کے صاحبزادے شفاعت حسین نے اردونیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک غیر قانونی اجلاس تھا جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ چودھری شجاعت ہی ق لیگ کے صدر ہیں اور الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں بھی یہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کامل علی آغا ایک صوبائی جنرل سیکرٹری ہیں وہ ایسا کوئی قدم اٹھانے کے اہل ہی نہیں۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ پارٹی کے آئین کی دستاویز نہ تو پارٹی کی ویب سائیٹ پر دستیاب ہے اور نہ ہی پارٹی آفس میں۔ جس طریقے سے چودھری شجاعت حسین کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا دعوی کیا جا رہا ہے وہ کس حد تک درست سے ہے، یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سے رابطہ کیا (مشاہد حسین اب مسلم لیگ ن کے سینیٹرہیں)۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب میں پارٹی کا جنرل سیکرٹری تھا اس وقت غالبا 2006 میں پارٹی کا آئین بنایا گیا تھا جس میں پارٹی صدر کے چناؤ کا ایک طریقہ کار وضع کیا گیا تھا۔ اس طریقہ کار کے تحت جنرل کونسل تین سال کے لیے صدر اور سیکرٹری کو منتخب کرے گی۔  تاہم اب میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت پارٹی کے آئین کی کیا صورت حال ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ تبدیلیاں کی گئی ہوں۔‘  
پارٹی کے قانونی معاملات دیکھنے والے اور سابق وزیر قانونی ڈاکٹر خالد رانجھا سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایک بات ذہن میں رکھیں کہ پاکستان میں پارٹی آئین اور پارٹیوں کے اندر انتخابات محض خانہ پری ہوتی ہے۔ کسی بھی پارٹی میں کوئی جمہوریت نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر خالد رانجھا کے بقول ’ق لیگ کا آئین تو یہ کہتا ہے کہ جنرل کونسل اگر چاہے تو صدر کو ہٹا سکتی ہے۔ یہ جزئیات کہ کیا پنجاب کا سیکرٹری اجلاس بلا کر مرکزی صدر کو فارغ کر سکتا ہے یا نہیں اس بات کے بارے میں پارٹی کا اپنا آئین بھی خاموش ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس منظر کو کیسے دیکھتا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے پارٹی کی جانب سے نئے صدر کا سرٹیفیکیٹ قبول کر لیا تو پھر تو معاملہ ختم اگر وہاں صورت حال دوسری رہی تو پھر یہ معاملہ لمبا چل سکتا ہے۔‘ 

شیئر: