Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاش آنکھوں کے سامنے ہے لیکن یقین نہیں آرہا کہ فہد اب نہیں رہا‘

سمندر میں نہانے پر دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے تاہم اس کے باوجود بھی شہریوں کی بڑی تعداد سمندر کا رخ کر رہی ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)
کراچی کے علاقے لیاقت آباد سندھی ہوٹل کے رہائشی محمد اسلم کا کہنا ہے کہ ایک لمحے میں ان کی زندگی بدل سی گئی ہے۔ کل تک گھر میں ہنسی مذاق کرتا ان کا جواں سال بیٹا فہد اسلم اب اس دنیا میں نہیں رہا ہے۔  
’کراچی ٹرٹل بیچ کے ساحل کی تیز لہریں اپنے ساتھ میرے بیٹے کو لے گئی۔ گھر میں فہد سب کا لاڈلہ تھا۔‘
’لاش ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود یقین نہیں آرہا کہ فہد اب نہیں رہا ہے۔‘
سترہ سالہ فہد اسلم 12ویں جماعت کا طالب علم تھا اور کراچی صدر کی موبائل مارکیٹ میں موبائل رپیئرنگ کا کام کرتا تھا۔
فہد اسلم کے چچا محمد عمران نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب فہد اور اس کے دوستوں نے لیاقت آباد سندھی ہوٹل کے قریب واقع اپنے گھر کے باہر بار بی کیو پارٹی کی۔‘
’رات گئے تک تمام دوست گھر کے باہر ہی رہے اور کھانا پکایا۔ پھر اتوار کی صبح گھر والوں کو اطلاع دیے بغیر فجر کی نماز پڑھ کر ہاکس بے کے لیے روانہ ہوگئے۔‘  
انہوں نے بتایا کہ فہد 6 بھائیوں میں 5 ویں نمبر کا تھا اور والد کے بہت قریب تھا۔
فہد کی خواہش تھی کہ وہ اپنا موبائل فونز کا کاروبار کرے اور اس سلسلے میں وہ موبائل مارکیٹ میں دو سال سے موبائل رپیئرنگ کا کام کر رہا تھا۔
’فہد کی اچانک موت سے گھر میں تو سوگ ہے ہی لیکن اس کے والد کا حال برا ہے۔ وہ مسلسل اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھ کر رو رہے ہیں۔‘ 
محمد عمران کے مطابق انہیں ریسکیو ادارے کے اہلکار کے ذریعے اتوار کی صبح ساڑھے آٹھ بجے اطلاع ملی کہ لیاقت آباد سندھی ہوٹل سے چھ نوجوان ٹرٹل بیچ آئے تھے اور سمندر کی تیز لہروں نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دو نوجوانوں کو زندہ نکال لیا گیا جبکہ فہد اور ان کے چار دوستوں کی تاحال تلاش جاری ہے۔  
ان کا کہنا ہے کہ اطلاع ملتے ہی ہم ٹرٹل بیچ پہنچے۔ اس دوران فہد کے ساتھ موجود دو نوجوانوں کی لاشیں نکال کی گئی تھیں لیکن فہد اور اس کے دوست کی لاش نہیں مل سکی تھی۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق کراچی میں ہاکس بے کے قریب 24 گھنٹوں کے دوران 8 افراد ڈوب گئے جن میں سے دو کو زندہ نکال لیا گیا ہے جبکہ چھ افراد کی لاشیں نکالی گئی ہے۔
سمندر میں نہانے پر دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے تاہم اس کے باوجود بھی شہریوں کی بڑی تعداد سمندر کا رخ کر رہی ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق کراچی میں ہاکس بے کے قریب 24 گھنٹوں کے دوران 8 افراد ڈوب گئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولیس نے ہاکس بے کی طرف جانے والے راستوں کو بند کر دیا ہے اور خلاف ورزی پر متعدد افراد کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی گئی ہے۔ 
اس کے علاوہ ہفتے کو سینڈسپٹ کے ساحل پر پکنک منانے کے لیے آنے والے نوجوان بھی ڈوب گئے تھے جن میں سے 16 سالہ محسن کی لاش ہفتے کے روز نکال لی گئی تھی جبکہ 15 سالہ مامون کی لاش اتوار کی صبح ایدھی کے غوطہ خوروں نے نکالی۔ 
محمد اسلم نے بتایا کہ علاقے کے چار نوجوانوں کی موت پر فضا سوگ وار ہے۔ ہر آنکھ اشک بار ہے۔ فہد اسلم کی نماز جنازہ آج (پیر کو) بعد نماز ظہر ادا کی جائے گی اور ان کی تدفین مقامی قبرستان میں ہی کی جائے گی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ انتظامیہ ساحل پر جانے والوں کو سمندر میں جانے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات کرے تاکہ کسی اور کے بچے کی جان یوں ضائع نہ ہو۔  

شیئر: