Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوسائٹی کا پریشر نہیں لیا، زندگی اپنی شرائط پر جی: ارسا غزل

ارسا غزل کے مطابق ہر انسان کو اپنی مرضی کے فیصلے کا حق ہے۔ (فوٹو: اے آر وائی)
اداکارہ ارسا غزل کا شمار ان فنکاراؤں میں ہوتا ہے جو سکرپٹ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہیں۔ آج کل ان کا ڈرامہ ’حبس‘ آن ایئر ہے جس میں ان کے کردار کو خاصا پسند کیا جا رہا ہے۔
ارسا غزل نے اپنے اس کردار کے حوالے سے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ دو پڑھے لکھے مہذب لوگوں کی کہانی ہے۔ بیوی کو کوئی اور پسند آیا تو اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ اب میں تمہارے ساتھ رہوں تو منافقت ہو گی لہٰذا شوہر نے بیوی کو عزت سے چھوڑ دیا۔ نہ کوئی الزام لگایا نہ یہ کہا کہ اس کا کردار ٹھیک نہیں۔
ڈرامے میں ایک عورت کو ایسا ’بولڈ‘ فیصلہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے لیکن معاشرے میں اگر کوئی عورت ایسا کرنے کا سوچے بھی تو اس پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔
اس حوالے سے ارسا غزل نے کہا کہ ’ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرے۔ میں عورت کے اس حق کو تسلیم کرتی ہوں۔
ارسا کہتی ہیں کہ ’عورت اگر اپنی مرضی کے مطابق کوئی فیصلہ کر لے تو طوفان کھڑا ہو جاتا ہے جبکہ مرد چار شادیاں کرے یا 10 افیئرز چلائے اس کے ایسے عمل کو بہت بری نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
ارسا غزل سمجھتی ہیں کہ ’طلاق کو ہم نے ٹیبو بنایا ہوا ہے۔ ماں باپ کی علیحدگی کی وجہ سے بچے پریشان ہوجاتے ہیں، ٹھیک بات ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اس وقت پریشان ہوتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ ساری زندگی ان کے ماں باپ آپس میں لڑتے رہے۔

ارسا غزل اور اشنا شاہ بہنیں ہیں۔ (فائل فوٹو)

انہوں نے کہا کہ ’ایسے بچوں کی ذہنی صحت ان بچوں کے مقابلے میں بہت قابل رحم ہوتی ہے جن کے ماں باپ الگ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جب ماں باپ کی علٰیحدگی ہوتی ہے تو ماﺅں کو بچے ساتھ رکھنے کا حق مل جاتا ہے تو وہ بچوں کو باپ کے خلاف کرتی رہتی ہیں یا اگر بچہ باپ کے پاس ہو تو وہ اس کو ماں کے خلاف باتیں بتاتا ہے۔ ماں باپ اپنی اپنی اناﺅں کے چکر میں بچوں کی ذہنی صحت خراب کر دیتے ہیں۔
عورت اگر سنگل پیرنٹ ہو تو اسے معاشرے میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ارسا غزل کا کہنا تھا کہ ’عورت اگر سنگل پیرنٹ ہے تو اس کے لیے مشکلات ہیں لیکن اگر بچوں کا باپ مالی فرائض پورے کر رہا ہو اور بچوں کو سپورٹ کر رہا ہو تو بچوں اور عورت کے لیے آسانی ہو جاتی ہے۔  ہمارے ہاں مرد ایسے بدلہ لیتا ہے کہ خاتون کو خرچہ نہیں دیتا۔
ارسا غزل کے مطابق ’عورت کی آزادی صرف معاشی آزادی ہے۔ اگر وہ معاشی طور پر خود مختار ہو گی تو اپنے فیصلے خود کر سکے گی۔

اداکارہ ارسا غزل نے متعدد ڈراموں میں کام کیا۔ (فوٹو: انسٹاگرام)

آج کل بننے والے ڈراموں کی کہانیوں کے حوالے سے ارسا کی رائے جاننا چاہی تو انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے ڈراموں میں لوسٹوری نہیں ہوتی بلکہ ٹرائی اینگل ہوتا ہے۔ پہلے کئی سال بہنوئی اور سالی کے عشق جیسے ٹرینڈز چلتے رہے اب کزنز کی شادیوں پر زور ہے۔ ایک لڑکے کو دو کزنیں پسند کر رہی ہیں۔
ارسا غزل نے بتایا کہ ’میرے ماں باپ نے اپنی زندگی اپنی شرائط پہ جی اور مجھے بھی میری زندگی میری شرائط پہ جینے دی۔ میرے ہر فیصلے میں میرے ساتھ کھڑے رہے اور میں نے اپنے فیصلے خود کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ماں باپ کا ساتھ دینے کے باوجود کہیں نہ کہیں شاید سوسائٹی کا پریشر تو ہوتا ہی ہے میرے بھی لاشعور میں ایسا کہیں تھا، لیکن میرے فیصلوں پر یہ ان دیکھا پریشر حاوی نہ ہو سکا اور میں نے اپنی زندگی اپنی شرائط پر جی۔

شیئر: