Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا گجرات کے چوہدری برادران کے درمیان اب برف پگھل رہی ہے؟

تجزیہ کار رضا رومی سمجھتے ہیں کہ چوہدری برادران کی سیاست ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ کی رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سیاسی طوفان بظاہر تھم چکا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلٰی کے طور پر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حمزہ شہباز اس وقت ملک سے باہر ہیں جبکہ ابھی تک پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ 
چوہدری پرویز الٰہی کے انتخاب کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست جس میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ ’بیلٹ پیپرز پر سیریل نمبرز لگا کر خفیہ ووٹنگ کے عمل کو سبوتاژ کیا گیا، اس پر بھی خاطر خواہ کوئی پیش رفت نہیں ہے۔ 
مسلم لیگ ن کا خیال تھا کہ ق لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین ایسے میں اپنے 10 ایم پی ایز کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر نااہل کروانے کے لیے الیکشن کمیشن جائیں گے تاہم ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ 
تو کیا چوہدری برادران کے درمیان محاذ آرائی تھم چکی ہے؟ اس بات کا جواب براہ راست دونوں طرف سے ملنا مشکل ہے کیونکہ ابھی کوئی فریق اپنے اپنے تمام پتے شو کرنے کو تیار نہیں۔ تاہم مسلم لیگ ق کے ایک اعلٰی عہدیدار نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت ’غیراعلانیہ‘ سیز فائر چل رہا ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ ’خدشہ ضرور تھا کہ جیسے چوہدری خاندان میں سیاسی معاملات کی وجہ سے دراڑ پڑی یہ بات کہیں آگے جا کر ہی ختم ہوگی، اور پرویز الٰہی کی وزارت اعلٰی خطرے میں پڑ سکتی تھی، تاہم ابھی تک چوہدری شجاعت نے کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی سیاسی ہلچل ماند پڑ چکی ہے۔‘
مسلم لیگ ق کے اعلٰی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ ضمی انتخابات کے نتائج کے بعد مسلم لیگ ن کا سارا تکیہ چوہدری شجاعت حسین کی سیاست پر ہے۔

حمزہ شہباز اس وقت ملک سے باہر ہیں جبکہ ابھی تک پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا تعین نہیں ہو سکا ہے (فائل فوٹو: حمزہ شہباز فیس بک)

’میرا خیال ہے اگر ن لیگ کو چوہدری شجاعت سے ذرا سی بھی امید ہوتی تو سیاسی میدان میں اس طرح کا سکوت نہ ہوتا اور ابھی تک اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوتا۔ اس وجہ سے مسلم لیگ ن نے بھی اس محاذ پر خاموش سمجھوتہ کر لیا ہے۔‘
خیال رہے کہ ق لیگ پنجاب کے سیکریٹری جنرل کامل علی آغا نے پارٹی کا ایک اجلاس بلا کر مرکزی صدر چوہدری شجاعت حسین اور مرکزی سیکریٹری طارق بشیر چیمہ کو عہدوں سے ہٹا کر پارٹی کے نئے انتخابات کا اعلان کر دیا تھا، لیکن چوہدری شجاعت کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کا عمل روک دیا۔
الیکشن کمیشن نے ابھی اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اجلاس کس حد تک قانونی تھا جس میں چوہدری شجاعت کو ہٹایا گیا۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے کامل علی آغا سے پوچھا کہ کیا پارٹی کے اندر سیز فائر ہو چکا ہے؟ تو انہوں نے مختصر جواب دیا کہ ’حالات کنڑول میں ہیں اللہ خیر کرے گا۔‘ 

’نیوٹرل شائد اب مزید نیوٹرل نہ رہیں

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سیاسی بساط اس وقت مرکز میں بچھی ہوئی ہے اور سب کی نظریں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر نااہلی کے ریفرنس پر ہیں۔
سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’جہاں تک چوہدری برادران کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ خاموشی کا تعلق مرکزی سیاست کی وجہ سے ہے۔ عمران مخالف تمام سیاسی قوتیں اس وقت توشہ خانہ ریفرنس پر توجہ دے رہی ہیں۔ اگر وہاں فیصلہ ان کے حق میں آجاتا ہے تو پھر پنجاب کا محاذ ایک مرتبہ پھر کھل جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں تو آگے ابھی بہت سیاسی گہما گہمی دیکھ رہا ہوں چاہے چوہدری پرویز الٰہی ہوں یا شجاعت حسین وہ بے وقت اپنے سیاسی وار ضائع نہیں کریں گے۔ ہاں جب ضرورت پڑے گی تو پتا چلے گا کہ سیز فائر حقیقی ہے یا عارضی۔‘

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سب کی نظریں عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر نااہلی کے ریفرنس پر ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)

تجزیہ کار رضا رومی سمجھتے ہیں کہ چوہدری برادران کی سیاست ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ کی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’سیاسی منظر نامے پر آہستہ آہستہ نظر آرہا ہے کہ نیوٹرل شاید اب مزید نیوٹرل نہ رہیں۔ شہباز گل والا معاملہ آپ کے سامنے ہے۔ تو مجھے تو یہی لگتا ہے کہ جب پنجاب میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی جائے گی تو دیر نہیں لگے گی۔ آپ یہ بھی دیکھ لیں کہ ملک کے کسی بھی وزیراعلٰی سے زیادہ چوہدری پرویز الٰہی کے آرمی چیف کے حق میں روزانہ بیانات آرہے ہوتے ہیں۔‘
’وہ اپنے طور پر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے کم کروانے کی کوشش کرتے بھی دکھائی دے رہے ہیں لیکن میرا خیال ہے اب کافی دیر ہو چکی ہے۔‘

’اب ریاست گجرات بنائی جا رہی ہے‘

پنجاب کو پرویز الٰہی اپنے انداز سے چلائیں گے یا عمران خان کے طریقے سے، یہ معاملہ بھی ابھی پورا واضح نہیں ہوا۔ عمران خان نے ابھی تک ق لیگ کا کوئی وزیر نہیں لگنے دیا اور ایک چار رکنی ورکنگ کمیٹی بنا دی ہے جو پالیسی معاملات دیکھے گی۔ 
تاہم اس سارے عمل میں چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے آبائی شہر گجرات کو ڈویژن کا درجہ دے دیا ہے، جس میں منڈی بہا الدین اور حافظ آباد کے اضلاع کو شامل کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے یہ اضلاع گوجرانوالہ ڈویژن میں تھے۔ اپوزیشن الزام عائد کر رہی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے گجرات کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے ہیں۔ 
مسلم لیگ ن کی رہنما اعظمیٰ بخاری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پہلے پنجاب کے فنڈ تونسہ کی طرف موڑ دیے گئے تھے اور دھیلے کا کام کہیں نظر نہیں آرہا تھا اور اب ریاست گجرات بنائی جا رہی ہے۔ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز آتے ہی ایک چھوٹے سے شہر کی نذر کر دیے گئے ہیں۔‘

پنجاب کو پرویز الٰہی اپنے انداز سے چلائیں گے یا عمران خان کے طریقے سے، یہ معاملہ بھی ابھی پورا واضح نہیں ہوا (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ڈویژن بھی اس لیے بنایا گیا ہے کہ نوکریاں پیدا کی جائیں۔ پرویز الٰہی کی ساری نظر اپنی پارٹی اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے پر ہے اور یہی وہ چاہتے تھے۔ ہم اس اندھیر نگری کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔‘

شیئر: