Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وعدے پورے نہیں کیے‘،انڈین کسان رکاوٹیں توڑتے ہوئے دہلی میں داخل

کسانوں نے جھنڈے اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے (فوٹو: این ڈی ٹی وی)
انڈیا میں کسانوں نے ایک بار پھر احتجاج شروع کر دیا ہے اور رکاوٹیں توڑتے ہوئے دارالحکومت دہلی میں داخل ہو گئے ہیں۔ کسانوں نے حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے یہ الزام لگایا ہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے ’وعدے پورے نہیں کیے جا رہے۔‘
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو ہزاروں کی تعداد میں ملک کے مختلف حصوں سے کسان دارالحکومت کے قریب جمع ہوئے اور پھر مل کر شہر میں داخل ہوئے، حکومت نے کسانوں کی ممکنہ آمد کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے تاہم وہ کسان کو داخل ہونے سے نہ روک سکے۔
خیال رہے کہ ایک سال تک جاری رہنے والے کسانوں کے پچھلے احتجاج کے بعد حکومت نے ان سے مذاکرات کیے تھے اور ان کے بیش تر مطالبات مان لیے تھے، جس کے بعد کسانوں نے احتجاج ختم کر دیا تھا تاہم آٹھ ماہ بعد کسانوں نے وعدے نہ پورے کرنے کا الزام لگاتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا ہے۔
احتجاج کا اہتمام کرنے والی تنظیم سمیوک کسان مورچہ کی جانب سے حکومت سے جو مطالبات کیے جا رہے ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ حکومت تمام پیداواروں کے لیے کم سے کم امدادی قیمت کی ضمانت دے، کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں۔
اس معاملے پر درخواست کے باوجود ابھی تک انڈیا کی وزارت زراعت کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
کسانوں نے جھنڈے اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور پنڈال کی طرف بڑھتے ہوئے راستے میں آنے والی رکاوٹیں توڑ دیں۔

26 جنوری کو انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقع پراحتجاج کرنے والے کسانوں نے لال قلعہ کے اوپر جھنڈا لہرایا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

پچھلے سال نومبر میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ زراعت کے حوالے سے بنے تین قوانین واپس لیں گے تاہم کسانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے کسانوں کا استحصال ہو گا۔
پچھلے سال نومبر میں کسانوں کے شدید احتجاج کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم نے تینوں زرعی قوانین واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم تینوں قوانین کو واپس لینے کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاس میں آئینی عمل کا آغاز کریں گے جو رواں ماہ کے آخر میں شروع ہوگا۔‘
اس سے قبل احتجاج کا فیصلہ اس وقت تیز کر دیا تھا جب اس پر انڈین سپریم کورٹ کا یہ موقف سامنے آیا تھا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور وہ اس کا جائزہ لے گی۔
پچھلے سال ہونے والے احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے اور چار کسانوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ستمبر 2020 میں کئی ریاستوں میں کسانوں کے احتجاج کے باوجود حکومت کی جانب سے تین متنازع قوانین کی منظوری دی گئی تھی۔

پچھلے سال احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات بھی ہوئے جن میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

جس پر کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ان سے زرعی اشیا کی قیمتوں کے تعین کا اختیار متاثر ہو گا اور بڑے ریٹیلیرز قیمتوں کو کنٹرول کریں گے۔
ان قوانین کی منظوری کے بعد بڑے پیمانے کا احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور ملک کے مختلف حصوں سے کسانوں کی ریلیاں دارالحکومت پہنچی تھیں جہاں انہوں نے ڈیرے ڈال لیے تھے اور بی جے پی کی حکومت کو دفاعی پوزیشن پر دھکیل دیا تھا۔
اسی طرح 26 جنوری کو انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقع پر نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسان دارالحکومت دہلی کے لال قلعہ میں داخل ہو گئے تھے اور اس کے اوپر جھنڈا لہرا دیا تھا۔
اس پر وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ دلی میں مظاہرین نے لال قلعے پر دھاوا بول کر ملک کی ’توہین‘ کی ہے۔

شیئر: