Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بزرگ‘ شاہ چارلس سوم نوجوان نسل کے دِلوں پر راج کر سکیں گے؟

73 سال کی عمر میں بادشاہ بننے والے نوجوان نسل کی زیادہ توجہ حاصل نہیں کر سکے (فوٹو: اے ایف پی)
جانے اسے دور کا ستم کہا جائے یا کچھ اور کیونکہ 73 سال کی عمر میں بادشاہ بننے والے چارلس کو ایسے نوجوان برطانیوں کا سامنا ہے کہ جو ان کے بارے میں شکوک کا شکار ہیں اور بادشاہت کے مستقبل حوالے سے سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ میں ضلع سوہو کے اس پب کی منظر کشی کی گئی ہے جو اسی طرح کھچا کھچ بھرا ہے جیسا ملکہ برطانیہ کی موت سے قبل ہوا کرتا تھا یعنی کہا جا سکتا ہے کہ ملکہ کا انتقال لندن کے نوجوانوں کو ویک اینڈ  پر لطف اندوز ہونے سے نہیں روک سکا۔
28 سالہ جوزف کورن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’مجھے چارلس کے بادشاہ بننے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور نہ امیدیں وابستہ کی ہیں۔‘
اسی طرح ایک میز کے کنارے بیٹی 29 سالہ لوسی نے اس خواہش کا اظہار کرنے میں کسی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا کہ ان کا قطعی خیال یہی ہے کہ وہ چارلس کو آخری بادشاہ کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں۔
’میں نئے بادشاہ کے حوالے سے ایسی ہی امید رکھتی ہوں۔‘
73 سال کی عمر میں بادشاہ بننے والے چارلس اب تک کی برطانیہ کی تاریخ کے معمر ترین بادشاہ ہیں جبکہ ان سے قبل سات دہائیوں تک ان کی والدہ ملکہ رہیں۔
مئی میں یوگو کی جانب سے شائع کیے جانے پول میں بتایا گیا تھا کہ 18 سے 24 سال کی عمر کے صرف 29 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں چارلس بادشاہ کے طور پر اچھا کام کریں گے۔

شاہ چارلس کو ایسی نوجوان نسل کا سامنا ہے جو بادشاہت کے مستقبل پر بھی سوال اٹھا رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

شاہی خاندان کی ہزار سال کی مقبولیت کی درجہ بندی میں چارلس کو 12 نمبر ملا جو ملکہ الزبتھ سے کافی نیچے تھی جبکہ پرنس ولیم اور ہیری دوسرے اور تیسرے نمبر پر تھے۔
ملکہ کے انتقال کے بعد ہونے والے تازہ پول میں اگرچہ شاہ چارلس سوئم کی ریٹنگ میں بہتری آئی ہے تاہم ہر کوئی ان کے ابتدائی ایام کی کارکردگی سے زیادہ متاثر دکھائی نہیں دیدتا۔
21 سالہ سیم کہتے ہیں کہ ’مجھے ان کے ابتدائی خطابات میں وہ توانائی نظر نہیں آئی جو ملکہ کی بات چیت سن کر محسوس کیا کرتا تھا۔‘
اسی طرح ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ چارلس کی مقبولیت کئی دہائیوں تک سامنے آنے والے سکینڈلز کی وجہ سے بھی متاثر ہوئی اور ڈیانا سے علیحدگی بھی وجہ بنی، جو 1997 میں کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

ماہرین کے مطابق سکینڈلز کی وجہ سے بھی شاہ چارلس سوئم کی مقبولیت میں کمی آئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح حالیہ چند برسوں میں شاہی خاندان کو نسل پرستی کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے جو زیادہ اہم اس لیے ہیں کہ یہ چارلس کے بیٹے ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن کی جانب سے لگائے گئے ہیں۔
جوڑا ملکہ الزبتھ سے تعلقات خراب ہونے کے بعد برطانیہ سے امریکہ شفٹ ہو گیا تھا اور وہیں سکونت پذیر ہے۔
شاہی خاندان کے معاملات کے ماہر رچرڈ فٹزولیم سمجھتے ہیں کہ عہدوں میں عمر میں فرق پڑتا ہے۔
’یقیناً جب آپ عمر کی ساتویں دہائی میں ہوں، آپ وہ کشش نہیں رکھتے جو تیسرے یا چوتھے عشرے میں رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے اعتراف کیا کہ چارلس کے عوام کے ساتھ تعلقات میں گزشتہ برسوں کے دوران ’اتار چڑھاؤ‘ رہا ہے تاہم انہوں نے اپنے ٹرسٹ سے لاکھوں مستحق نوجوانوں کی مدد کی ہے۔
صرف ایک چیز ایسی دکھائی دیتی ہے جس پر وہ نوجوانوں کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں وہ ہے ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں کا بحران، اس کے بارے میں شاہ چارلس برسوں سے پرجوش رہے ہیں۔
22 سالہ کونر ایڈم کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں ان کی آواز سنی جائے گی وہ حکومت اور سیاست دانوں پر بہت اثر رکھتے ہیں۔‘

شیئر: