Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران: پولیس سٹیشن پر حملے میں پاسداران انقلاب کے چار اراکین سمیت 36 افراد ہلاک

مرنے والوں میں پاسداران انقلاب کے کرنل حمیدرضا ہاشمی کو شناخت کیا گیا ہے۔ فوٹو عرب نیوز
ایران کے مشرقی شہر زاہدان میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 36 ہو گئی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق جمعے کو سیستان بلوچستان صوبے کے دارالحکومت میں ایک ملٹری کمانڈر کے ہاتھوں مبینہ طور پر 15 سالہ بلوچ لڑکی کے ریپ اور قتل کے بعد وہ احتجاج مزید شدت اختیار کر گیا جو مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف پہلے سے ہو رہا تھا۔
سنیچر کو ہونے والی جھڑپوں میں پاسداران انقلاب کے سینیئر کمانڈر سمیت چار اہلکار ہلاک ہوئے جس کے بعد علاقے میں ابلاغ کی سروسز میں رکاوٹیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
صوبائی انتظامیہ کا کہنا ہے اب تک 19 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ مقامی نیوز ایجنسی حالِ وش نے یہ تعداد 36 بتائی ہے جبکہ درجنوں کی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔
قبل ازیں ایرانی حکام نے کہا تھا کہ جنوب مشرقی شہر زاہدان کے ایک پولیس سٹیشن پر مسلح علیحدگی پسندوں کے حملے میں 19 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں ایران کے پاسداران انقلاب کے چار ارکان بھی شامل ہیں۔
ایرانی  سرکاری خبر رساں ادارے ارنا نے ہفتے کو بتایا ہے کہ حملہ آور جمعے کو شہر کی ایک مسجد کے قریب نمازیوں کے درمیان چھپ گئے تھے اور  پھر قریبی پولیس سٹیشن پر حملہ کیا۔
ایران کی نیوز ایجنسی نے صوبے کے گورنر حسین مدریسی کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا ہے کہ 19 افراد کی  ہلاکت کے علاوہ رضاکار فورسز سمیت 32 دیگر ارکان زخمی بھی ہوئے ہیں۔
گذشتہ دنوں ایران میں 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہونے والی ہلاکت کے بعد ہونے والے ملک گیر حکومت مخالف مظاہروں کے بعد زاہدان کے پولیس سٹیشن پر ہونے والے اس حملے کو فوری طور پر ان ہنگاموں کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔
واضح رہے کہ سیستان-بلوچستان کا صوبہ افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں سے ملتا ہے۔ اس سے قبل بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے بھی سکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی تسنیم کی شائع ہونے والی خبر میں اس حملے میں مبینہ طور پر ملوث کسی علیحدگی پسند گروپ کی شناخت نہیں کی گئی ہے۔
حملے میں  ہلاک ہونے والوں میں پاسداران انقلاب کے کرنل حمید رضا ہاشمی کو شناخت کیا گیا ہے ان کے علاوہ ہلاک ہونے والوں میں محمد امین آذرشوکر، گارڈ ممبر اور محمد امین عارفی کے علاوہ رضاکار فورس کے ممبرز شامل ہیں۔

 مظاہروں میں کم ازکم 41 شہری اور پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ (فوٹو ٹوئٹر)

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم اور دیگر خبر رساں اداروں نے جمعے کو اطلاع دی تھی کہ گارڈ کے انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ سید علی موسوی کو حملے کے دوران گولی لگی جس کے باعث وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔
گزشتہ دو ہفتوں سے ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کے لیے ہزاروں ایرانی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور خواتین کے ساتھ ناروا سلو ک پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایران میں ہونے والے حالیہ مظاہروں نے مختلف نسلی گروہوں کے حامیوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔
 مہسا امینی ایرانی کرد تھیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی ہلاکت پر احتجاج سب سے پہلے کرد علاقوں میں شروع ہوا۔

بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے بھی فورسزپر حملے ہوتے رہے ہیں۔ (فوٹو ٹوئٹر)

ایران کے سرکاری ٹی وی نے اطلاع دی ہے کہ 17 ستمبر سے شروع ہونے والے ان مظاہروں کے بعد سے کم ازکم 41 مظاہرین اور پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ دارالحکومت تہران سے باہر احتجاجی مظاہروں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ہفتے کو تہران کے مرکز میں واقع ایک یونیورسٹی کے گرد بھی مظاہرین نے جمع ہو کر نعرے بازی کی۔ بعدازاں انسداد فسادات پولیس نے مظاہرین کو منتشر کر دیا۔

شیئر: