Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاپتہ رکشہ ڈرائیور کے قاتل کا سراغ بھائی نے لگا لیا، ملزم گرفتار

ملزم کی نشاندہی پر جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں گزشتہ روز مقتول کی لاش برآمد کر کے سول ہسپتال پہنچائی گئی۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک ہفتہ قبل لاپتہ ہونے والے رکشہ ڈرائیور کی گمشدگی کا معمہ حل ہو گیا ہے۔
رکشہ ڈرائیور کو قتل کر کے لاش پہاڑ کے دامن میں دفنائی گئی تھی۔ قاتل کا سراغ مقتول کے بھائی نے لگایا اور پولیس کو خبر کی۔
پولیس کے مطابق 17 سالہ نور اللہ ایرانی ساختہ مال بردار رکشہ (زرنج) چلاتا تھا، جو 12 اکتوبر کی صبح مشرقی بائی پاس کی گلی نمبر 8 میں واقع اپنے گھر سے نکلنے کے بعد سے لاپتہ تھا۔
نوراللہ کے بھائی صالح محمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب رات تک بھائی گھر نہیں آیا تو ہم نے اس کی تلاش شروع کر دی۔ رشتے داروں اور دوستوں سے بھی پتہ کیا مگر بھائی اور ان کے زرنج رکشہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ اس کے بعد ہم نے منظور شہید پولیس تھانہ میں گمشدگی اور پھر اغوا کے خدشے کے پیش نظر مقدمہ درج کرایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ نور اللہ نے کم عمری میں ہی تعلیم چھوڑ کر گھر چلانے کے لیے باپ اور بھائیوں کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا تھا۔ وہ گزشتہ تین چار سالوں سے زرنج رکشہ چلا رہا تھا۔

تفتیشی افسر بشیر احمد کے مطابق ’ملزم نے قتل کے بعد لاش کو پہاڑ کے دامن میں دفنا دیا تھا۔‘ (فوٹو: کوئٹہ پولیس)

صالح محمد کے مطابق ’مقدمہ درج کرانے کے کئی دن بعد بھی بھائی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ اس لیے ہم نے ان کے لاپتہ زرنج رکشہ کے بارے میں خود معلوم کرنا شروع کیا۔ ہمیں شبہ تھا کہ کسی نے انہیں رکشہ چھین کر قتل نہ کردیا ہو۔‘
’ہم شہر کے مختلف علاقوں میں زرنج رکشہ کے شو رومز اور خرید و فروخت کے مراکز گئے۔ کچلاک میں ایک شو روم مالک نے بتایا کہ آپ کی بتائی ہوئی نشانیاں رکھنے والا زرنج رکشہ ایک شخص فروخت کرنے آیا تھا تاہم چوری کے شک کی وجہ سے رکشہ نہیں خریدا اور مذکورہ شخص کے شناختی کارڈ کی کاپی اور موبائل فون نمبر اپنے پاس محفوظ رکھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم شناختی کارڈ کی کاپی اور موبائل نمبر سمیت دیگر معلومات لے کر پولیس کے پاس گئے اور مشتبہ ملزم کے بارے میں اطلاع دی۔ اس کے بعد مزید کارروائی پولیس نے کی۔‘
کیس کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر بشیر احمد کے مطابق دوران تفتیش زرنج رکشہ کے بارے میں معلومات ملنے پر پولیس نے مشتبہ ملزم عبدالستار کا سراغ لگایا۔ ملزم بھی اسی علاقے کا رہائشی تھا۔ کافی کوششوں کے بعد اسے گرفتار کرلیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر ملزم اس سب معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتا رہا، تاہم بعد میں تفتیش کے دوران اس نے اعتراف کیا کہ ’وہ نور اللہ کو اضافی کرائے کا کہہ کر گھر کا سامان کہیں لے جانے کے بہانے مشرقی بائی پاس کی گلی نمبر سات میں پہاڑ کے قریب واقع گھر لے گیا اور وہیں تشدد کر کے قتل کر دیا۔‘

پولیس سرجن کے مطابق مقتول کو سر پر ڈنڈے مار کر اور گلہ گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ (فوٹو: کوئٹہ پولیس)

تفتیشی افسر بشیر احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزم نے بتایا کہ قتل کے بعد اس نے نور اللہ کو گھر سے کچھ فاصلے پر پہاڑ کے دامن میں دفنایا اور زرنج کو چھپا لیا۔‘
’ملزم کی نشاندہی پر جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں گزشتہ روز مقتول کی لاش برآمد کر کے سول ہسپتال پہنچائی گئی۔ پولیس سرجن کے مطابق مقتول کو سر پر ڈنڈے مار کر اور گلہ گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔‘
گمشدگی کا معمہ حل کرنے میں پولیس سے زیادہ اہل خانہ کے کردار سے متعلق تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے کیسز میں اہلخانہ بھی مدد کرتے ہیں۔ پولیس مخبروں اور دیگر ذرائع کا استعمال کرتی ہے یہ سب تفتیش کا حصہ ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے چند روپوں اور رکشہ چوری کر کے فروخت کرنے کے لالچ میں جرم کیا۔ ملزم کا اس سے پہلے کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں ملا تاہم باقی تھانوں اور پولیس ریکارڈ کی جانچ کی جا رہی ہے۔

شیئر: