Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے لانگ مارچ شیڈول میں تبدیلی: کیا گیم پلان کوئی اور ہے؟

اسد عمر کے مطابق لانگ مارچ 11 نومبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ فوٹو: اے ایف پی
سابق وزیراعظم اور چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں جاری لانگ مارچ کے قافلے کو چار نومبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہونا تھا لیکن اب یہ گیارہ نومبر کو پہنچے گا۔
بظاہر سابق وزیراعظم بار بار حکمت عملی بدل کر نئی سیاسی چالیں چل رہے ہیں جس سے متعلق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شاید عمران خان کے ذہن میں کوئی اور گیم پلان چل رہا ہے۔
تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے اعلان کیا کہ لانگ مارچ 11 نومبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ 
سینئیر صحافی و کالم نگار نگار نصرت جاوید کے خیال میں عمران خان کے ذہن میں کوئی بڑی گیم چل رہی ہے۔
نصرت جاوید نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’ایسا نہیں ہے کہ اچانک حکمت عملی تبدیل ہو جائے کوئی نہ کوئی بڑی گیم ان کے ذہن میں چل رہی ہے۔‘
لانگ مارچ کے شیڈول میں تبدیلی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے سینئیر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد ایک ساتھ اسلام آباد میں داخل ہونے کا ہے اور شیڈول تبدیل کرنے کی وجہ لانگ مارچ کی رفتار کا مسئلہ ہے۔ فیس سیونگ کا کوئی مسئلہ نہیں، یہ حقیقیت ہے کہ لانگ مارچ میں کنٹینر کے ساتھ لوگ پیدل سفر کر رہے ہیں اس لیے رفتار تیز نہیں کی جاسکتی۔‘ 
اس حوالے سے پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ’کنٹینر کی رفتار سست ہے، ہزاروں لوگ کنٹینر کے ساتھ پیدل سفر کر رہے ہیں اگر اس کو تیز کریں تو حادثوں کا خدشہ ہے۔ 10 سے 12 کلو میٹر سے زیادہ ایک دن میں سفر نہیں ہوسکتا۔ سفر کو تیز کرنے کی کوشش کریں گے اور اس حوالے سے ایک اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے۔‘

لانگ مارچ کا قافلہ 4 نومبر کو اسلام آبا میں داخل ہونا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

لانگ مارچ ری شیڈول کرنے کا مقصد ہے کیا؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ کا شیڈول تبدیل کرنے کا مقصد دباؤ برقرار رکھنا ہے۔
’عمران خان چاہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تقرری تک دباؤ برقرار رکھا جائے اور جب تک یہ تقرری نہیں ہوتی وہ احتجاجی تحریک جاری رکھیں۔‘
سینیئر صحافی و کالم نگار نصرت جاوید کے خیال میں عمران خان کے ذہن میں کوئی بڑی گیم چل رہی ہے۔
’میرا خیال ہے کہ غالباً عمران خان کی حکمت عملی میں تبدیلی آرمی چیف کی تعیناتی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔‘ 
انہوں نے لفظ غالباً پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت وہ مارچ کو اسلام آباد میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔‘
ماضی کے لانگ مارچز سے موجودہ لانگ مارچ کیسے مختلف ہے؟ 
سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان کے موجودہ لانگ مارچ کی حکمت عملی ماضی کے لانگ مارچز سے یکسر مختلف ہے۔
’ماضی میں ہم نے جتنی بھی تحریکیں یا مارچز دیکھیں ہیں وہ مسلسل چلتی ہیں۔ نواز شریف کا لانگ مارچ جی ٹی روڈ سے سیدھا چلا آ رہا تھا اور قافلہ ابھی گجرانوالہ پہنچا تو فیصلہ ہوچکا تھا۔‘
سہیل وڑائچ نے ابھی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کا لانگ مارچ کچھوے کی چال کی طرح ہے، یہ لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ الیکشن مہم بھی ہے کہ ہر دوسرے چوک پر جلسےکرنا اور انتخابی حلقوں میں اپنی مہم بھی جاری رکھنی ہے۔ یہ لانگ مارچ کی روایتی تشریح سے بالکل مختلف ہے۔‘ 
سہیل وڑائچ کے مطابق ’لانگ مارچ میں شرکائ کی تعداد مناسب ہے، عمران خان ابھی تک کوئی فقیدالمثال عوام باہر نکالنے میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن اتنے لوگ موجود ہیں جتنے ان کے جلسوں میں ہوا کرتے ہیں۔‘
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک موجودہ مارچ سے مختلف ہے، یہ ایک ریلی کی شکل میں اسلام آباد کی جانب پیش قدمی ہے جبکہ پی این اے ایک پہیہ جام احتجاج کی شکل اختیار کر گیا تھا۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کے ذہن میں کوئی گیم پلان چل رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سیاسی تجزیہ نگار رسول بخش رئیس کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ کا 13واں لانگ مارچ ہے۔ 
’ہماری تاریخ کا یہ 13واں لانگ مارچ کسی ڈرا پر ختم ہونے والا نہیں ہے۔ یہ فیصلہ کن ہونے جا رہا ہے۔‘
رسول بخش رئیس کے خیال میں ’لانگ مارچ سے ممکنہ طور پر نتائج ہو سکتے ہیں۔ اول یہ کہ مارچ جیسے جیسے بڑھے گا کسی موقع پر مذاکرات کے ذریعے فریقین کسی نقطے پر اتفاق کر لیں گے۔ دوسرا ممکنہ نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان عوام کو بڑی تعداد میں باہر نکالنے میں ناکام رہیں تو یہ مارچ ناکام ہو سکتا ہے یا پھر سپریم کورٹ اس مارچ کو غیر قانونی قرار دے کر روک دے۔‘

شیئر: