Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان خواتین کے پارکوں میں جانے پر پابندی، ’بچوں نے کچھ اچھا نہیں دیکھا‘

گزشتہ برس افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ خواتین کو محرم کے بغیر گھر سے نہیں نکلنا چاہیے۔ (فوٹو: روئٹرز)
افغان طالبان نے خواتین کو کابل کے تفریحی مقامات (پارکس) میں جانے سے روک دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کو طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ خواتین کو تفریحی مقامات پر جانے سے روکا گیا ہے تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
کچھ عرصہ قبل طالبان نے کہا تھا کہ خواتین کے پارکس میں جانے کے لیے الگ دن مخصوص کیے جائیں گے۔
طالبان انتظامیہ کے نائب ترجمان بلال کریمی نے بھی اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
روئٹرز نے روکے جانے کے واقعات کا خود مشاہدہ کرنے کا دعوٰی کرتے ہوئے کہا کہ جب خواتین کو روکا گیا تو اس وقت طالبان کے نمائندے بھی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے موجود تھے۔
کابل کی رہائشی خاتون معصومہ، جنہوں نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر پورا نام بتانے سے گریز کیا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پوتوں کو پارک لے جا رہی تھیں تاہم ان کو پارک میں داخل ہونے سے روکا گیا۔
’جب ایک ماں اپنے بچوں کے ساتھ آتی ہے تو اس کو داخل ہونے دینا چاہیے کیونکہ ان بچوں نے کچھ اچھا نہیں دیکھا۔۔۔ ان کو کھیلنا چاہیے اور تفریح کرنی چاہیے۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے اندر جانے دیں تاہم انہوں نے انکار کیا اور اب ہم گھر واپس جا رہے ہیں۔‘

امریکی حمایت یافتہ حکومتوں کے دور میں خواتین کو آزادی حاصل تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پارک میں کام کرنے والے دو افراد نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ان کو طالبان حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ خواتین کو پارک میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
گزشتہ برس افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ خواتین کو محرم کے بغیر گھر سے نہیں نکلنا چاہیے اور اپنے چہرے چھپانے چاہییں۔
اگرچہ طالبان نے کچھ خواتین کو سرکاری دفاتر میں کام کرنے کی اجازت دی تھی لیکن انہوں نے لڑکیوں کے سکول بند کر دیے تھے۔
مغربی ممالک کے حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے جانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خواتین اور انسانی حقوق کا احترام کریں۔

شیئر: