Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرائیویسی کے مقدمے میں گوگل 39 کروڑ ڈالر سے زائد رقم ادا کرنے پر تیار

ڈیٹا لوکیشن بند ہونے کے باوجود گوگل صارفین کی نقل و حرکت مانیٹر کرتا رہا۔ فوٹو: اے ایف پی
دنیا کے مقبول سرچ انجن گوگل نے ڈیٹا پرائیویسی کیس میں 39 کروڑ ڈالر سے زائد رقم ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ 
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گوگل 39 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی تصفیے کی رقم امریکہ کی 40 ریاستوں کو ادا کرے گا۔
ان ریاستوں نے الزام عائد کیا تھا کہ گوگل نے صارفین کو گمراہ کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کروائی کہ ان کی ڈیوائسز پر لوکیشن ٹریکنگ بند ہے۔
ریاست آریگن کے اٹارنی جنرل ایلن روزین بلوم کے مطابق یہ امریکی تاریخ میں پرائیویسی کے مقدمے میں متعدد ریاستوں کو سب سے بڑی ادا ہونے والی تصفیے کی رقم ہے۔
رقم کی ادائیگی کے ساتھ ہی گوگل نے یہ بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ صارفین کو درست معلومات کی فراہمی کے لیے بہتر اقدامات کیے جائیں گے۔
اٹارنی جنرل ایلن روزین بلوم نے کہا کہ ’گوگل اپنے صارفین کو دھوکہ دیتا رہا، صارفین کا خیال تھا کہ انہوں نے لوکیشن ٹریکنگ فیچر بند کیا ہوا ہے لیکن کمپنی خفیہ طور پر ان کی نقل و حرکت کو ریکارڈ کرتی رہی تاکہ یہ معلومات مشتہرین کے ساتھ شیئر کی جا سکیں۔‘
وفاقی حکام کی طرف سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہ کرنے پر 40 امریکی ریاستوں نے مشترکہ مقدمہ دائر کیا تھا۔
آن لائن پرائیویسی کے معاملے پر حکومتی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی اور اپوزیشن ریپبلکن جماعت کے ارکان کے درمیان اتفاق نہیں پایا جاتا جبکہ دوسری جانب ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے حق میں بھرپور انداز میں لابنگ میں بھی سرگرم ہیں۔
جبکہ یورپ میں کام کرنے والی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو پرائیویسی کے سخت قوانین کی پاسداری کرنا پڑتی ہے، خلاف ورزی کرنے پر گوگل، ایمازون اور دیگر کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا ہے۔
جنوبی کوریا میں گوگل اور میٹا کو صارفین کی اجازت کے بغیر ذاتی معلومات جمع کرنے پر ستمبر میں 571 ملین ڈالر کا ریکارڈ جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا۔
جبکہ سال 2017 سے یورپی یونین گوگل کو عدم اعتماد کی مد میں 8.5 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کر چکا ہے۔

شیئر: