Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹوئٹر کے بعد دنیا کیسی ہو گی؟ پاکستانی محفل سجانے کے لیے نئی جگہ ڈھونڈنے لگے

ٹوئٹر کا پلیٖٹ فارم 2006 میں قائم کیا گیا تھا (فائل فوٹو: ایرک یامین ٹوئٹر)
ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کمپنی کا کنٹرول سنبھالنے سے پہلے یہ اپنی ٹویٹس کی وجہ سے ہلچل پیدا کرچکے تھے تاہم ادارے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اپنے اقدامات اور اعلانات سے انہوں نے ٹویپس کی ٹائم لائنز پر گویا تلاطم برپا کر رکھا ہے۔
بہت سے ٹویپس کا اتفاق ہے کہ گذشتہ چند روز میں کم ہی کوئی ایسا موقع گزرا ہو گا جب ایلون مسک کے اعلانات یا اقدامات سے ٹرینڈ پینل میں کچھ نیا نہ ہوا ہے۔
جمعہ کو ایلون مسک نے ٹوئٹر کے لوگو میں استعمال ہونے والی چڑیا کے ساتھ ایک قبر کی تصویر شیئر کی تو ٹرینڈز پینل میں ’ٹوئٹر کا مستقبل اور پلیٹ فارم کی مبینہ بندش‘ کا معاملہ خدشات اور تشویش میں بدلا دکھائی دیا۔ دیگر ملکوں کی طرح پاکستانی ٹائم لائنز بھی اسے موضوع بنانے سے پیچھے نہ رہ سکیں۔

ٹوئٹر کے بغیر دنیا کیسے ہو گی؟ کا سوال ہوا تو کسی کو یہ تشویش ہوئی کہ ’ٹوئٹر کے بعد یاروں کی محفلیں کہاں سجیں گی۔‘

سعد مقصود نے ’ٹوئٹر کے خاتمے‘ کو موضوع بنایا تو لکھا کہ ’سب کو عملی زندگی میں پتا لگ جائے گا ہمارے کتنے فالوورز ہیں۔‘
مستقبل میں ’سکون ملنے‘ کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ’کچھ وقت ضائع ہونے سے بج جائے گا۔‘

متعدد صارفین نے ٹوئٹر کے ابتدائی دنوں سے متعلق یادیں تازہ کیں تو لکھا کہ انہوں نے کب پلیٹ فارم پر اکاؤنٹ بنایا اور اس وقت اس پر کیا سرگرمی ہوا کرتی تھی۔ پرانی یادیں تازہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو کئی افراد ماضی تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ مستقبل کے نقشے بھی ترتیب دیتے رہے۔
شیراز حسن نے لکھا کہ ’اگر ٹوئٹر گزر گیا تو آپ مجھے کوئٹہ ہوٹل پر ڈھونڈ سکتے ہیں۔‘ 

محمد سعید ان لوگوں میں شامل تھے جو ٹوئٹر کے مستقبل کے حوالے سے جاری گفتگو کے پس منظر سے لاعلم رہے تو پوچھا کہ ’میں ابھی آیا ہوں۔ ٹوئٹر کو کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ بھی ہمیں چھوڑ جائے گا۔‘

عالیہ رشید نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’ہم ساری پھپھے کٹنیوں کے لیے ٹوئٹر سے اچھا چوک کوئی نہیں تھا۔ اب مرحوم کی مغفرت کی دعا کریں گے۔‘

کامران یوسف نے مستقبل کے متعلق اندازہ قائم کرتے ہوئے لکھا کہ ’ٹوئٹر سچ میں بند ہو گیا پاکستان میں تو کئی لوگوں کی سیاست ہی دفن ہو جائے گی۔‘
جواب میں کہا گیا کہ ’اگر واٹس ایپ بند ہو گیا تو بہت سے لوگوں کی صحافت بھی دفن ہو جائے گی۔ دو واٹس ایپ کیمپ اُجڑ جائیں گے۔‘

پاکستانی ٹائم لائنز پر یہ گفتگو ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ایلون مسک سے منسوب ایک خط سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے پلیٹ فارم کے ملازمین کو ’مشکل وقت میں طویل دورانیے کے کام‘ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔
ٹوئٹر میں انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد ملازمین کو موقع دیا گیا تھا کہ وہ 17 نومبر تک طویل دورانیے کے لیے کام کی ہامی بھریں یا تین ماہ کی تنخواہ کے ساتھ ملازمت سے الگ ہوجائیں۔
اس پیش رفت کے بعد خود کو ٹوئٹر کا ملازم بتانے والے متعدد افراد ’لو ویئر یو ورک‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہیں صورت حال پر اپنے تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں تو کہیں ادارہ چھوڑ کر جانے کا اعلان کر رہے ہیں۔

’ہر دن کو اپنا آخری روز سمجھ کر ٹویٹ کرتے رہو‘ کا قول بائیو میں سجائے ہوئے میٹ نوارا نے لکھا کہ ’لگتا ہے کہ ایلون مسک کی جانب سے ٹوئٹر سٹاف کو دیا گیا الٹی میٹم بیک فائر کر گیا ہے۔‘

جمعہ کو ہی ٹوئٹر کی جانب سے ملازمین کو بھیجا گیا مبینہ خط بھی سامنے آیا ہے جس میں پیر تک دفاتر بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
گذشتہ 16 برسوں میں پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں ’اوپینیئن لیڈرز‘ اور ’ایکٹیوسٹس یا موثر لوگوں کا پلیٹ فارم‘ کہا جانے والا ٹوئٹر اب بھی مائیکروبلاگنگ پلیٹ فارم ہی کہا جاتا ہے لیکن حالیہ چند ماہ سے متعارف کرائی گئی جدتوں کی وجہ سے یہ اپنے صارفین کو متنوع تجربات کا موقع مہیا کر رہا ہے۔
امریکی سوشل میڈیا کمپنی کا ملکیتی پلیٹ فارم ٹوئٹر 21 مارچ 2006 کو کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں قائم کیا گیا تھا۔ جیک ڈورسی، ایون ولیمز، بز سٹون اور نو گلاس کے قائم کردہ پلیٹ فارم کی چیف ایگزیکٹیو شپ 27 اکتوبر 2022 کو ایلون مسک نے سنبھالی ہے۔

شیئر: