Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایم کیو ایم پاکستان اور بانی متحدہ کے درمیان لندن کی جائیداد کا تنازع کیا ہے؟

ایم کیو ایم کے تمام دھڑے الطاف حسین کے خلاف یک زبان دکھائی دے رہے ہیں (فوٹو: ایم کیو ایم آفیشل)
تین دہائیوں سے پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہری علاقوں پر حکمرانی کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ تین سالوں سے اپنے تنظیمی معاملات میں الجھی ہے، بانی ایم کیو ایم الطاف حسین سے لاتعلقی کے بعد تنظیمی معاملات ہر گزرتے روز کے ساتھ بگڑتے جا رہے ہیں۔
تین حصوں میں تقسیم تنظیم اب ایک نکتے پر متفق نظر ا ٓرہی ہے اور تمام دھڑے اپنے سابق قائد کے خلاف عدالت میں یک زبان ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
 لندن میں ایم کیو ایم کی جائیداد کے تنازع پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے وفاقی وزیر سید امین الحق کی مدعیت میں الطاف حسین کے خلاف لندن کی عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔
مقدمے میں ایم کیو ایم پاکستان بننے کے بعد پہلے سربراہ فاروق ستار، سابق مئیر کراچی وسیم اختر اور سابق ڈپٹی کنوینر ندیم نصرت سارے ہی الطاف حسین کے خلاف نظر آ رہے ہیں۔
ایم کیو ایم رہنماؤں نے برطانیہ کی عدالت میں اپنے اپنے بیانات قلم بند کروا دیے ہیں۔

کیا ایم کیو ایم کے سابق رہنما ایک جگہ جمع ہورہے ہیں؟

ایم کیو ایم پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر ندیم نصرت کا ماننا ہے کہ موجودہ ایم کیوایم پاکستان کو اس معاملے کو عدالت میں نہیں لے جانا چاہیے تھا۔
واضح رہے کہ لندن کی عدالت میں ایم کیوایم کے نام سات پراپرٹیز ہیں، جن کی ملکیت کا دعویٰ ایم کیوایم پاکستان کررہی ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی لندن کی عدالت کی میں اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے (فوٹو: ایم کیو ایم پاکستان، سوشل)

متحدہ پاکستان موومنٹ کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ لندن میں موجود یہ پراپرٹی ایم کیوایم کی ملکیت ہے اور اس پر پارٹی کے ہلاک، لاپتہ اور گرفتار ہونے والے کارکنوں اور ان کے گھروالوں کا حق ہے۔

کن پراپرٹی کی ملکیت کے دعوے کیے جارہے ہیں؟

یہ سات پراپرٹیز نارتھ لندن کے مہنگے علاقوں میں موجود ہیں اور ان کی مالیت تقریباً 9 سے 11 ملین پاؤنڈ بتائی جا رہی ہے۔ ان میں الطاف حسین کی رہائش گاہ اور ایم کیو ایم کا انٹرنیشنل سیکریٹریٹ بھی شامل ہے۔  

ایم کیو ایم کے موجودہ اور سابق رہنما کیا کہتے ہیں؟

سابق میئر کراچی اور ڈپٹی کنوینیر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ گرفتار و لاپتہ ساتھیوں کا معاملہ ایم کیو ایم پاکستان حل کر رہی ہے۔


سید امین الحق کی مدعیت میں الطاف حسین کے خلاف لندن کی عدالت سے رجوع کر رکھا ہے (فوٹو: وزارت آئی ٹی)

’ہمارے پاس ماضی کی طرح کروڑوں اربوں روپے نہیں آتے۔ ایم کیو ایم کو اسی مقام پر پہنچائیں گے جہاں وہ اپنے عروج پر تھی۔‘
ڈاکٹر فاروق ستار اور سابق سٹی ناظم مصطفٰی کمال سے متعلق بات کرتے ہوئے وسیم اختر نے کہا کہ ان کے بیانات سے ایم کیو ایم کو فرق نہیں پڑتا۔
’سازشی ٹولہ نہیں چاہتا ایم کیو ایم مضبوط ہو۔ ہم حالات کے مطابق جو صحیح سمجھتے ہیں مشاورت سے وہی فیصلہ کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ لڑائی سے دور رہ کر اپنے معاملات حل کریں۔‘
سابق رہنما ایم کیوایم اور وائس آف کراچی کے موجودہ رہنما ندیم نصرت کے مطابق بہت سی باتیں ان سے منسوب کی گئی تھیں جنہیں کلیئر کرنے وہ عدالت گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ عدالت میں کسی کے خلاف پیش نہیں ہوئے تھے۔
’جو باتیں مجھ سے منسوب کی گئی تھیں ان پر اپنا موقف دینا ضروری تھا۔ اگر ان کو کلیئر نہ کرتا تو ان باتوں کو سچ سمجھا جاتا۔‘
ان کے مطابق ’ایم کیو ایم کی ذمہ داریوں سے مجھے الگ کر دیا گیا ہے۔ اورامریکہ میں رہائش پذیر ہوں ایم کیو ایم کی سیاسی سرگرمیوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس عدالت تک نہیں جانا چاہیے تھا۔ یہ معاملہ باہر بھی طے ہوسکتا تھا۔‘
سابق سربراہ ایم کیوایم پاکستان ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی لندن کی عدالت کی میں اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے۔ اپنی رہائش پر گاہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’لندن کی عدالت میں کیس درج نہیں کروانا چاہیے تھا۔ یہ ایم کیوایم پاکستان کا فیصلہ تھا بہادرآباد نے 2020 میں یہ کیس درج کروایا ہے۔ اس سے قبل میں بہادرآباد سے الگ ہو چکا تھا۔‘

شیئر: