Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان نے اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کیوں موخر کیا؟

عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے لاہور میں پی ٹی آئی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کے دوران پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو توڑنے کے فیصلے کو موخر کرنے اعلان کیا ہے۔ 
اس سے قبل عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے اس حوالے سے حتمی فیصلے کے لیے دو دسمبر کا دن مختص کیا تھا جس میں پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے سامنے یہ معاملہ رکھا جانا تھا۔ 
تاہم عمران خان نے پارٹی سے اپنے خطاب میں اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے کو موخر کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’وہ اس معاملے پر مذاکرات کرے۔‘
ایسے میں یہ سوال شدت سے سر اٹھا رہا ہے کہ آخر عمران خان نے اعلان کے بعد اس میں تاخیر کا عندیہ کیوں دیا؟ وہ کیا مضمرات ہیں جن کی وجہ سے انہوں نے جارحانہ کی بجائے احتیاط سے چلنے کا فیصلہ کیا؟ 
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شریک پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پنجاب سے استعفے دینا خودکشی کے مترادف ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اراکین اسمبلی کی اکثریت یہ سمجھتی ہیں کہ اس وقت میں اسمبلی چھوڑنا مخالفین کے لیے میدان کھلا چھوڑنے کے مترادف ہے۔ اس وقت تمام حلقوں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شروع ہو چکے ہیں۔ فنڈز کا اجرا بھی ہو چکا ہے۔ ایسے میں اگر حکومت ہمارے ہاتھ سے چلی جاتی ہے تو کسی کو نہیں پتہ آگے کیا ہو گا۔ فرض کریں اگر صوبے میں اقتدار ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے پاس چلا جاتا ہے تو ہمارے ہاتھ کیا آئے گا؟‘

مسرت چیمہ نے کہا ہے کہ ’اگر کچھ ایم پی ایز کو تحفظات ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘ (فائل فوٹو: مسرت چیمہ ٹوئٹر)

پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ ’اگر اسمبلی توڑ بھی دی جاتی ہے تو نگران حکومت ہماری مرضی کی تو نہیں ہو گی۔ جبکہ الیکشن کے دوران ن لیگ کے پنجاب میں ایم این ایز متحرک ہوں گے۔‘
’ہم نے تو پہلے ہی قومی اسمبلی سے استعفے دے رکھے ہیں۔ ایم پی ایز نے اپنی یہ ساری گزارشات خان صاحب تک پہنچائی ہیں اور یہ استدلال دیا ہے کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں، ایسا نہ ہو کہ اس فیصلے سے پارٹی کو مزید سیاسی نقصان اٹھانا پڑے۔‘
ایک اور ایم پی اے نے رازداری کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’اصل فیصلہ تو پارٹی چیئرمین نے ہی کرنا ہے۔ لیکن کسی بھی سیاسی فیصلے کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ پارٹی کے کچھ رہنما تھوڑی جلدی میں دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ اکثریت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی حامی ہے۔ اور یہ بات خوش آئندہ ہے کہ خان صاحب نے بڑے تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اور معاملہ موخر کر دیا ہے۔‘
اس حوالے سے ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ سے جب پوچھا گیا کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر ایم پی ایز اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک جمہوری جماعت ہیں اور اختلاف رائے پارٹی کے اندر ہمیشہ رہا ہے۔ بلکہ ہماری واحد پارٹی ہے جس میں سب سے زیادہ کھل کر بات کی جاتی ہے۔‘
’اگر کچھ ایم پی ایز کو تحفظات ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ خان صاحب وہی فیصلہ کریں گے جو پارٹی کے مفاد میں ہو گا اور جس کے دور رس نتائج ہوں گے۔‘

شیئر: