Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جیل، عدالت اور انتخابات: ماریہ میمن کا کالم

’جیل بھرو تحریک‘ بھی ایک ایسا ہی منصوبہ ثابت ہوا جس سے متوقع نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
عمران خان کی سیاست پر مختلف آرا ہو سکتی ہیں مگر ان کے مخالف بھی اس کا اقرار کریں گے کہ جمود ان کے طرز سیاست سے کوسوں دور ہے۔
یہ بھی سب ہی مانیں گے کہ انہوں نے طویل عرصے تک روایتی اور جوڑ توڑ کی سیاست میں مہارت نہ ہوتے ہوئے بھی کچھ ہی عرصے میں گلی محلے کی سطح پر پہنچ کر اپنے داؤ پیچ سے سیاست کا رخ بدل دیا ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے اس دوران ان کا ہر حربہ کارگر نہیں رہا اور کافی دفعہ ان کو متوقع نتائج نہیں ملے، اور اپنے منصوبوں کو انہیں ادھورا چھوڑنا پڑا۔ مگر ان کی اصل کامیابی فورا سنبھلنے اور کسی نئے کلیے اور نئے بیانیے کے ساتھ سامنے آنے میں ہے۔
مخالفین اس کو یوٹرن کا نام دیتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خود اس سے انکار نہیں کرتے بلکہ وہ اور ان کے کارکن اس کو مان کر پھر نئے ولولے سے عازم سیاست ہو جاتے ہیں۔
’جیل بھرو تحریک‘ بھی ایک ایسا ہی منصوبہ ثابت ہوا جس سے متوقع نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ اس میں اصل مسئلہ اس منصوبے کی ٹائمنگ رہی۔ ایک طرف عمران خان ابھی تک گھر تک محدود ہیں۔ ان کی گرفتاری کے اعلانات ہو رہے ہیں مگر ابھی تک اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

عمران خان نے اپنے داؤ پیچ سے سیاست کا رخ بدل دیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

ان کی جو ساتھی پہلے گرفتار ہوئے وہ کچھ عرصے بعد ضمانت پہ باہر بھی آ گئے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کو حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں ہی لٹکانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر معاملہ سپریم کورٹ اپنے دائرہ کار میں لے چکی ہے۔
ایسے میں جیل بھرو جیسا قدم کسی فوری ہدف کے بغیر ہی رہا ہے۔ اگر عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی یا پھر حکومت واضح اعلان کر دیتی کہ وہ الیکشن نہیں کروانا چاہتی۔ اس طرح کی صورتحال میں احتجاج کی حتمی شکل ایک سیاسی ضرورت بن جاتی۔ ابھی شاید وہ وقت نہیں تھا اس لیے ’جیل بھرو تحریک‘ ادھورے منصوبوں کی فہرست میں رہے گی۔
جیل اور احتجاج اگر متوقع نتائج نا بھی دے سکے تو دیگر میدان بھی موجود ہیں۔ عدالت ان میں سے ایک ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا واضح حکم موجود ہے اور اب سپریم کورٹ بھی معاملے کا نوٹس لے چکی ہے۔
ملک کا شاید ہی کوئی قانونی ماہر ہو جو یہ پوزیشن لے کہ آئین میں کوئی ایسی گنجائش موجود ہے کہ 90 دن سے زیادہ انتخابات کو لے جایا جا سکے۔ معاملہ بہرحال اب چونکہ زِیرسماعت ہے اس لیے اب عدالت کی رائے ہی مقدم ہو گی۔
حکومتی جماعتوں کے بیانیے کی کمزوری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی تک کوئی عوامی پوزیشن اس پہ نہیں لے سکیں۔
عملی طور پر ان کی طرف سے ہر ممکن کوشش ہو چکی ہے کہ انتخابات کو ملتوی کیا جائے مگر ان کے پاس دلیل کی اس قدر قلت ہے کہ وہ کھل کر یہ کہہ بھی نہیں سکتے۔ ان کی واحد پوزیشن یا تو ٹیکنیکل ہے یا پھر گیند کو اِدھر سے اُدھر پاس کرنا ہے۔

حکومتی جماعتیں انتخابات کے حوالے سے ابھی تک کوئی عوامی پوزیشن نہیں لے سکیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حکومت کہے کہ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمیشن کہے کہ ان کو گورنر حکم دیں اور گورنر قانون کی تشریح کے نام پر ایک ایک دن گزار رہے ہیں۔ قانونی پوزیشن تو ایک طرف، حکومت کے پاس عملی طور پر بھی کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ اس صورتحال میں کون زیادہ نقصان میں ہے اس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔
سوال یہ نہیں کہ عمران خان اپنی ’جیل بھرو تحریک‘ کے بعد کیا کریں گے، سوال یہ ہے کہ حکومت کب تک اس معاملے کو کھینچ سکتی ہے؟
یہ پوائنٹ سکورنگ تجزیہ کار کر سکتے ہیں کہ کس کے کتنے منصوبے کامیاب ہوئے مگر بات تو آخر میں ووٹ پر ہی ختم ہو گی اور اگر لوگوں کے جذبات کو سامنے رکھا جائے تو یہ اندازہ مشکل نہیں ہو گا ۔ اس وقت تک جیل اور عدالت کے بیچ میں چکر لگاتے عمران خان کی طرف سے نئے نئے حربے سامنے آتے رہیں گے۔

شیئر: