Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں مقدمہ درج ہونے کے بعد کسان اور سارس کی ’دوستی ختم‘

سارس اتر پردیش کا ریاستی پرندہ ہے ۔ (فوٹو: اے ایف پی)
گزشتہ برس فروری میں 35 سالہ محمد عارف ایک زخمی سارس اپنے ساتھ گھر لائے تھے جو ان کو اترپردیش کے ضلع امیتھی کے ایک گاؤں مندھکا سے ملا تھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق محمد عارف نے تقریباً 13 ماہ تک سارس کی دیکھ بھال کی تاہم سنیچر کو انہیں معلوم ہوا کہ ان پر وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہو چکا ہے۔
منگل کو سارس کو پہلے رائے بریلی میں پرندوں کی سماس پور پناہ گاہ میں منتقل کیا گیا اور بعد میں اس کو اس لیے کانپور کے چڑیا گھر بھیج دیا گیا کہ یہ اب قدرتی ماحول نہیں بلکہ گھریلو آرام کا عادی بن چکا تھا۔
سارس عام طور پر مرطوب علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
یہ اتر پردیش کا ریاستی پرندہ ہے اور 1972 کے وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے شیڈول تین کے تحت اس کا تحفظ لازم ہے۔
یہ دنیا کے سب سے اونچے اڑنے والے پرندے ہیں جو تقریباً 150 سینٹی میٹر لمبے ہوتے ہیں۔
محمد عارف کا کہنا ہے کہ انہیں ایک کھیت سے یہ نر سارس ملا تھا جس کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی۔
’میں اس کو گھر لے کر آیا اور اس کی دیکھ بھال کی۔ ہلدی اور سرسوں کا تیل ملا کر اس کے ٹانگ پر لگاتا اور پھر ایک لکڑی کی مدد سے اس کو باندھ دیتا۔ ہم اپنی مرغیوں کا علاج بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔‘
محمد عارف زمیندار ہیں اور ان کے پاس درجن مرغیاں، ایک کتا، گائے اور بکریاں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی سارس کو اپنے قبضے میں نہیں رکھا بلکہ اس کی دیکھ بھال کی جس کے بعد دونوں میں دوستی ہو گئی۔
’چند ہفتوں ہی میں پرندہ صحت یاب ہونا شروع ہو گیا اور وہ اڑنے بھی لگا۔ یہ گھر کے صحن میں رہتا لیکن یہ کبھی بھی مستقل طور پر قدرتی مسکن کی جانب نہیں گیا۔‘
’میں جب بھی موٹر سائیکل پر ہوتا، یہ میرے پیچھے ہوتا۔ یہ جب چاہتا تو جنگل میں ہوتا اور شام کو یہ میرے گھر واپس آجاتا اور میرے ساتھ کھانا کھاتا۔‘

عارف پر نو مارچ کو وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے۔ (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

ان کے مطابق ’میں اس کو دال چاول اور روٹی کھلاتا۔۔۔ میں جو بھی کھاتا اس کو کھلاتا۔‘
سارس کیڑے مکوڑوں اور پودوں کی جڑیں کھاتے ہیں۔
عارف پر نو مارچ کو وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا اور انہیں دو اپریل کو 11 بجے اپنا بیان درج کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
محمد عارف کی بہن ناظمہ کا کہنا ہے کہ کسی نے سوشل میڈیا پر ویڈیو دی تھی جس کے بعد سارس کو دیکھنے کے لیے مقامی لوگ اور صحافی آنے لگے۔
پانچ مارچ کو اتر پردیش کے سابق وزیراعلٰی اور اپوزیشن رہنما اکلیش یادیو بھی عارف کے گھر گئے تھے اور انہوں نے دونوں کے ساتھ لی گئی ایک تصویر بھی ٹویٹ کی تھی۔
حکام نے بعد میں عارف سے سارس کو قبضے میں لیا تھا۔
اپوزیشن رہنما اکلیش یادیو نے الزام لگایا تھا کہ ان کے دورے کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا تاہم حکام کا کہنا ہے کہ سارس کو ان کے دورے کے سبب قبضے میں نہیں لیا گیا بلکہ ہم نے جنگلی حیات کے تحفظ کے تحت اس کو قبضے میں لیا۔

سارس مرطوب علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پرندے کے ’غائب‘ ہونے سے قبل اس کو بریلی کی سماس پور محفوظ پناہ گاہ میں رکھا گیا تھا۔
بعد میں 22 مارچ کو معلوم ہوا کہ یہ پرندوں کی پناہ گاہ سے آدھے کلومیٹر پر ایک شخص دلیپ کمار کے پاس تھا جس نے اسے کتوں سے بچایا تھا۔
دلیپ کمار کا کہنا ہے کہ ’ہم نے حکام کو اطلاع دی اور کچھ لوگ پرندوں کی پناہ گاہ سے آئے اور پرندے کو رکشے میں ساتھ کر لے گئے۔ جانے سے قبل اس نے ہمارے ساتھ کھانا کھایا اور ہم نے اس کے ساتھ ویڈیوز اور تصاویر بھی لیں۔‘
پناہ گاہ سے غائب ہونے کے بعد حکام نے اس کو کانپور کے چڑیا گھر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

شیئر: