Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کو پانچ ہزار دن مکمل ہو گئے

ماما قدیر کی سربراہی میں گمشدہ افراد کے رشتہ داروں نے بلوچستان سے اسلام آباد کی جانب پیدل مارچ کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے لگائے گئے احتجاجی کیمپ کو پانچ ہزار دن مکمل ہوگئے تاہم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کہنا ہے کہ صوبے میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ اب تک نہیں رک سکا ہے۔
کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگائے گئے اس علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کے وائس چیئرمین 84 سالہ ماما قدیر بلوچ ہیں جو روزانہ صبح سے شام تک اس کیمپ میں بیٹھے رہتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ کا الزام ہے کہ ’ان کے بیٹے جلیل ریکی کو سنہ 2009 میں سیکورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا اور بعد ازاں ان کی تشدد زدہ لاش ملی۔ بیٹے کی گمشدگی کے ساتھ انہوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔‘
اردونیوز سے بات کرتے ہوئے ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ دو ہزار کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوا تھا لیکن اس احتجاجی کیمپ کو سنہ 2009 میں شروع کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم پر اس مسئلے کے حل کے لیے احتجاج ہوتا رہا لیکن 14 سال قبل سو سے زائد لاپتہ افراد کے لواحقین نے اکٹھے ہوکر اپنی الگ تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا جسے بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کا نام دیا گیا۔‘
ماما قدیر بلوچ کے دعوے کے مطابق سنیچر کو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو پانچ ہزار دن مکمل ہو گئے ہیں۔

ماما قدیر کا کہنا ہے کہ ان کے احتجاج کے دوران کئی لاپتہ افراد بازیاب ہوئے ہیں۔ (فوٹو: وائس فار بلوچ مسنگ پرسن)

ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ ’ان 14 سالوں میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے ہم کوئٹہ کے علاوہ اسلام آباد، کراچی اور ملک کے باقی شہروں میں بھی احتجاج کرتے رہے۔ اس دوران سردیوں، گرمیوں، بارش، برفباری اور ہر قسم کے سخت موسم، سختیوں اور دھونس دھمکیوں کا مقابلہ کیا لیکن ہم نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عید اور خوشی کے باقی تہواروں کے موقع پر بھی لاپتہ افراد کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور رشتہ داروں نے اس کیمپ میں بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ اس دوران ہم نے سینکڑوں مظاہرے اور ریلیاں بھی نکالیں اور پریس کانفرنسز کی، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس طویل عرصے میں کئی لوگ بازیاب بھی ہوئے اور کئی مزید لاپتہ ہوئے۔ متعدد کی لاشیں ملیں۔ جب تک ہمارا آخری لاپتہ شخص بھی واپس نہیں آتا اس وقت تک ہمارا یہ کیمپ اور احتجاج جاری رہے گا۔ چاہے دس ہزار دن گزریں یا بیس ہزار دن، چاہے ہم زندہ رہے یا نہ رہے ہمارے بچے یہ احتجاج رکھیں گے۔‘

شیئر: