Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کی اقوام متحدہ میں کام کرنے والی خواتین پر بھی پابندی

دسمبر میں طالبان نے این جی اوز میں کام کرنے والی خواتینن پر پابندی عائد کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ طالبان نے غیرسرکاری تنظیموں کے بعد عالمی ادارے میں بھرتی خواتین کے کام کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے ترجمان نے طالبان کے حکم کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے افغانستان میں مشن (یوناما) کا کہنا ہے کہ مشرقی صوبے ننگرہار میں قائم عالمی ادارے کے دفتر میں کام کرنے والی خواتین کو روکا گیا ہے۔
سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان سٹیفین ڈیوجارک نے صحافیوں کو بتایا کہ یوناما کو طالبان حکومت کے احکامات کا علم ہوا جس میں اقوام متحدہ میں بھرتی خواتین کو کام کرنے سے روکا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق ان کے خیال میں احکامات کا اطلاق صرف صوبہ ننگرہار میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں قائم اقوام متحدہ کے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین پر ہوتا ہے۔
گزشتہ سال دسمبر میں طالبان نے ملکی اور غیر ملکی این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کی تھی تاہم اقوام متحدہ کے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو استثنیٰ حاصل تھا۔
ترجمان نے بتایا کہ فی الحال اقوام متحدہ کو طالبان کی جانب سے تحریری احکامات موصول نہیں ہوئے اور متعلقہ حکام سے مل کر تمام معاملے پر وضاحت طلب کریں گے۔
سٹیفین ڈیوجارک نے کہا کہ اس قسم کی کوئی بھی پابندی ناقابل قبول ہے اور اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ لوگوں تک امداد پہنچانے اور زندگیاں  بچانے میں خواتین اہلکاروں کی موجودگی اقوام متحدہ کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے۔
سٹیفین ڈیوجارک  نے کہا کہ ہمارے لیے یہ سوچنا بھی انتہائی مشکل ہے کہ ہم خواتین سٹاف کے بغیر کس طرح سے انسانی امداد کی ترسیل کو ممکن بنائیں گے۔
اے ایف پی نے جب طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے ننگرہار کی انتظامیہ سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں اقوام متحدہ کے 3,900 اہلکاروں میں سے 3,300 افغان شہری ہیں جن میں خواتین کی تعداد 600 ہے۔
گزشتہ ماہ ہی یوناما کی سربراہ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے سامنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ طالبان کی حکومت این جی اوز کے بعد پابندی کا اطلاق اقوام متحدہ میں کام کرنے والی خواتین پر بھی کر سکتی ہے۔

شیئر: