Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اللہ کرے کہ آپ سے دوبارہ ملاقات نہ ہو‘، عمران خان سے مکالمہ

سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست کی سماعت ختم ہوئی تو میرے ساتھ کھڑے صحافی دوست نے کہا کہ ہمیں عمران خان سے بات کرنی چاہیے کہ گرفتاری کے دوران ان کی دو راتیں کیسی گزری ہیں؟  
ابھی ہم ان کے پاس پہنچے ہی تھے کہ عمران خان کی ٹیم نے انہیں بیٹھنے کا مشورہ دے دیا۔ کوشش کر کے ہم نے عمران خان کے عقب میں نشست حاصل کر لی۔ وکلا سے عمران خان نے عدالتی فیصلہ سمجھا اور کہا کہ ’یار مجھے گھر کیوں نہیں جانے دیا؟‘  
بیرسٹر گوہر نے فیصلے کی باریکی سمجھانے کی کوشش کی تو فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے انگریزی میں کہا کہ ’فی الحال اتنی تفصیل میں نہ جائیں۔ انہیں ریلیکس کرنے دیں۔‘  
اس دوران کسی نے بتایا کہ اسد عمر کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا ہے تو عمران خان چونک کر سیدھے ہوئے اور بولے ’اسد کو بھی گرفتار کر لیا! کیوں؟‘
میں نے پوچھا خان صاحب پھر تو آپ کو شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری کا بھی پتا نہیں ہوگا؟ اس پر عمران خان شدید شاک میں نظر آئے اور وکلا سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’تم لوگوں نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ یہ سب ہوا ہے تو میں عدالت کے سامنے بات کرتا۔‘  
باہر کی صورت حال بتاتے ہوئے ایک وکیل نے کہا کہ ’اب تک 21 افراد جان سے چلے گئے ہیں جن کی تصدیق ہوئی ہے جب کہ 40 کی اطلاعات ہیں۔‘ یہ بات سن کر عمران خان ایک بار غصے میں آئے کہ ’پہلے کیوں نہیں بتایا؟ مجھے یہ سب باتیں عدالت کو بتانے کی ضرورت تھی۔‘
ایڈووکیٹ فصل چودھری مجھے اور صحافی دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ’آپ ہمیں موقع دیں ہم نے کچھ مشاورت کرنی ہے۔‘ تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ مشاورت سے پہلے ہمیں ہی کچھ سوال و جواب کا موقع دے دیں۔ 
عمران خان سے سوال ہوا کہ کیا آپ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر دھاوا بولے جانے کی مذمت کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’جب مجھے کچھ پتا ہی نہیں ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔‘
اردو نیوز نے عمران خان سے سوال کیا کہ چیف جسٹس نے آپ سے کہا ہے کہ ’اپنے سیاسی مخالفین سے مذاکرات کریں تو کیا آپ مذاکرات بحال کریں گے؟ عمران خان نے جواب دیا کہ ’جب وہ آئین کی بات ہی نہیں کرتے تو ان سے کیا مذاکرات ہو سکتے ہیں؟ ہم الیکشن چاہتے ہیں اور وہ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ آئین تو کہتا ہے کہ 90 دن میں الیکشن ہو۔ آئین بحال کریں پھر دیکھتے ہیں۔‘  
پھر سوال کیا کہ خان صاحب دوران حراست آپ کی کسی سے ملاقات ہوئی ہے؟ وہ زیرلب مسکرائے اور کہا کہ ’کسی سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ہاں خواجہ حارث سے ہوئی ہے انہوں نے کچھ باتیں بتائی ہیں، لیکن وہ غیرسیاسی آدمی ہے کچھ زیادہ بات نہیں کرتے۔‘ عمران خان نے کہا کہ ’بہرحال خواجہ حارث نے نیب عدالت میں زبردست دلائل دیے تھے۔ جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔‘
ایک غیر ملکی صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ کی گرفتاری ایک حاضر سروس فوجی آفیسر پر لگائے گئے الزامات کی وجہ سے ہوئی؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ ’وہ الزامات نہیں بلکہ حقائق ہیں۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’یہ تو نہیں معلوم لیکن میں جب لاہور سے نکلا تھا تو مجھے شک پڑ گیا تھا کہ یہ مجھے پکڑ لیں گے‘ (فائل فوٹو: عمران خان فیس بک)

اردو نیوز نے پھر پوچھا کہ گرفتاری کی وجہ آپ کا موقف اور اس حوالے سے بیان ہی ہے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ ’یہ تو نہیں معلوم لیکن میں جب لاہور سے نکلا تھا تو مجھے شک پڑ گیا تھا کہ یہ مجھے پکڑ لیں گے۔ اسی وجہ سے ویڈیو بیان جاری کیا تھا۔‘  
تشدد کے بارے میں سوال پر عمران خان نے کہا کہ ’گرفتاری کے دوران میرے سر پر ڈنڈا مارا گیا۔‘ میں چونکہ خان صاحب کے بالکل عقب میں موجود تھا تو پوچھ لیا کہ کہاں لگا ہے تو عمران خان نے سر کے بالکل پچھلے حصے سے بال ہٹائے تو ان کے نیچے گھومڑ یعنی سوجن اور ہلکا سا زخم موجود تھا۔  
ایک صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا اس چوٹ کا علاج ہوا تو عمران خان نے کہا کہ ’ہاں نیب نے علاج کروایا تھا۔‘
اس دوران نیب حکام عمران خان کے پاس آئے اور کہا کہ ’سر اب آپ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں اس لیے ہمیں اجازت دیجیے۔ اس پر عمران خان مسکرائے اور کہا کہ ’چلو اللہ ہی حافظ ہے اب پتا نہیں تم سے کب ملاقات ہوگی؟ اللہ کرے نہ ہی ہو۔‘
اس دوران پاس کھڑے صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ ہو سکتا ہے دو دن بعد؟ جس پر عمران خان نے کہا ’ہیں پھر پکڑ لیں گے؟‘ اور قہقہے بلند ہونے لگے۔
اسی دوران عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے ملاقاتیوں کی ایک فہرست دکھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ نام لکھے ہیں۔ ان ناموں میں خواجہ حارث، فیصل چودھری، سلمان صفدر، شعیب شاہین، بابر اعوان اور بیرسٹر گوہر شامل تھے۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’مجھے بشریٰ بیگم کو بلانا ہے۔ انہیں کیسے بلایا جائے؟‘ عمران خان نے سلمان صفدر کو اپنے ساتھ بٹھایا اور فہرست میں بشریٰ بیگم اور ان کی دو ملازماؤں کے نام شامل کرواتے ہوئے کہا کہ ’ان کو بلوا لیں۔‘

شیئر: