Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اڈیالہ جیل سے پریس کلب کا سفر: لوگ پارٹی کے بجائے زیادہ تر سیاست چھوڑ رہے ہیں

پاکستانی فوج نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کر رہی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صف اوّل کے لیڈرز سمیت 50 کے لگ بھگ نمایاں رہنما 9 اور 10 مئی کے پُرتشدد مظاہروں کے بعد کے حالات میں پارٹی سے علیحدگی یا پھر سیاست سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔
ان پی ٹی آئی رہنماؤں میں سے کچھ نے پارٹی عہدوں سے استعفے اور سیاست سے وقفہ لینے کی بات کی ہے جبکہ اکثر نے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔
رواں ماہ 9 مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ملک کے بڑے شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے پُرتشدد شکل اختیار کر گئے تھے اور مظاہرین نے متعدد سرکاری اور فوجی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔
اس کے بعد فوج کی جانب سے ان کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائیوں کا اعلان کیا گیا تھا، جس کی موجودہ اتحادی حکومت نے بھی توثیق کی تھی۔
پھر ملک بھر بالخصوص لاہور میں بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ 25 مئی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 50 گرفتار افراد کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے حوالگی کی درخواست بھی منظور کر دی تھی۔
اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے رہنما امن عامہ کو برقرار رکھنے کے قانون (ایم پی او) اور دہشت گردی کے مقدمات میں گرفتار یا نظربند ہیں جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی رہنماؤں کی پریس کانفرنسوں کا سلسلہ بھی وقفوں وقفوں سے جاری ہے۔

نیشنل پریس کلب کا کانفرنس ہال توجہ کا مرکز

اس وقت راولپنڈی کی مشہور اڈیالہ جیل اور اسلام آباد کا نیشنل پریس کلب سیاسی منظر نامے پر زیادہ زِیربحث ہیں۔ یوں لگتا ہے اڈیالہ جیل میں گرفتار رہنماؤں کے خیالات ’تبدیل‘ ہوتے ہیں اور یہ سیاسی رہنما وہاں سے سیدھا نیشنل پریس کلب اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں۔ پریس کلب پہنچتے ہی یہ لوگ اپنے بدلے ہوئے خیالات کا اعلان کر دیتے ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے بارے میں اچانک خبر نشر ہونے لگتی ہے کہ ’وہ کچھ دیر میں نیشنل پریس کلب میں اہم پریس کانفرنس کریں گے‘ اور پھر سبھی میڈیا چینلز کے نمائندوں کی پریس کلب کی جانب دوڑیں لگ جاتی ہیں۔

ملیکہ بخاری سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنما پریس کانفرنس کر کے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

پریس کلب کے باہر نیوز چینلز کی ڈی ایس این جی وینوں کی جبکہ اندر کانفرنس ہال میں کیمروں کی قطاریں لگ جاتی ہے اور سب کا فوکس نیلے پس منظر کے سامنے بنے سٹیج پر لگی میرون رنگ کی کرسی پر ہوتا ہے۔ سامنے میز پر ٹی وی چینلز کے لوگوز والے رنگ برنگے مائیکوں کا ڈھیر سا لگ جاتا ہے۔
اب تک کا مشاہدہ یہ ہے کہ ان پریس کانفرنسوں میں تحریکِ انصاف کے رہنما پہلے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کی فوج کی اہمیت اور اس کے عزت و احترام پر بات کرتے ہیں اور پھر اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کر دیتے ہیں۔
پریس کلب میں ہر ایک رہنما سے یہ سوال ضرور پوچھا جاتا ہے کہ ’کیا آپ پارٹی یا سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کسی دباؤ کے تحت کر رہے ہیں؟‘ اس سوال کے جواب ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ ’نہیں ہم اپنی مرضی سے یہ اعلان کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے کون سے نمایاں رہنماؤں نے پریس کانفرنسیں کیں؟

ابھی تک جن نمایاں رہنماؤں نے پریس کانفرنس کر کے تحریک انصاف چھوڑنے یا پارٹی عہدوں سے استعفوں کا اعلان کیا ہے، ان میں ڈاکٹر شیریں مزاری، محمود مولوی، اسد عمر، عامر محمود کیانی، ملیکہ بخاری، فیاض الحسن چوہان، ملک امین اسلم، آفتاب صدیقی، مسرت چیمہ، جمشید چیمہ، مراد راس، فردوس عاشق اعوان، ابرار الحق اور سیف اللہ نیازی شامل ہیں۔
تاہم پی ٹی آئی کے ترجمان اور میڈیا کے محاذ پر سرگرم رہنے والے فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کی بجائے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان ٹوئٹر پر ایک مختصر بیان جاری کر کے کیا۔
پریس کانفرنس کرنے والوں میں سے بیش تر اڈیالہ جیل میں قید گزار کر آ رہے ہیں۔

نواز شریف اڈیالہ جیل میں پہلے 1999 میں قید ہوئے اور پھر جولائی 2018 میں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اڈیالہ جیل کب بنی؟

اس جیل کا نام سینٹرل جیل راولپنڈی ہے لیکن یہ مشہور اڈیالہ جیل ہی کے نام سے ہے۔ یہ جیل سابق فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں 1970 کی دہائی کے آخر اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں راولپنڈی کے نواح میں واقع دہگال نامی گاؤں کے قریب اڈیالہ روڈ پر تعمیر کی گئی تھی۔
اس سے قبل راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل یہاں کی سب سے بڑی جیل شمار ہوتی تھی جس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو چار اپریل 1979 کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تھا۔ ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کا ذکر تقسیم ہند سے قبل بھی سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کے حوالے سے ہوتا رہا ہے۔
بعدازاں فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں اس جیل کو منہدم کر کے اس کی جگہ ’جناح پارک‘ تعمیر کروا دیا گیا تھا۔
اڈیالہ گاؤں اس جیل سے لگ بھگ چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

اڈیالہ جیل کے مشہور قیدی

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چند مشہور جیلوں کی طرح اڈیالہ بھی اہم حوالے کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ سیاسی رُودادوں، اخبارات کی شہ سرخیوں اور ٹیلی وژن کے سیاسی مباحثوں میں جن جیلوں کا اکثر ذکر ہوتا ہے، اڈیالہ جیل ان میں سے ایک ہے۔
ماضی میں اس جیل کے ’مہمان‘ بننے والی سیاسی شخصیات میں پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز شریف، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سابق وزیراعظم عمران خان، سینیئر سیاست دان جاوید ہاشمی، مسلم لیگ نواز راولپنڈی کے رہنما حنیف عباسی، سابق وفاقی وزیر شیخ رشید، پیپلز پارٹی کے رہنما اور رکن اسمبلی نوید قمر، حاجی نواز کھوکھر، سابق چیئرمین نیب سیف الرحمان، چوہدری تنویر اور آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کے نام شامل ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اڈیالہ جیل میں قیدیوں کے حالات اور سہولیات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سابق وزیراعظم نواز شریف اڈیالہ جیل میں پہلے سابق آمر جنرل مشرف کے دور میں 1999 میں قید ہوئے اور پھر جولائی 2018 میں اپنی تیسری وزارت عظمیٰ کے بعد بھی وہ اس جیل کے ’مہمان‘ بنے۔ اسی طرح جنرل مشرف کے دور میں یوسف رضا گیلانی بھی دو مرتبہ اس جیل کے قیدی رہے۔
ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کی اڈیالہ جیل میں نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائر صفدر قید کاٹ چکے ہیں۔
ماضی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیل میں قیدیوں کے حالات اور ان کو ملنے والی سہولیات کی تحقیقات کے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کمیشن کی سربراہی اس وقت کی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کر رہی تھیں جو گزشتہ دنوں اسی جیل میں قیدی کی حیثیت سے موجود تھیں۔

’لوگوں کو اندازہ ہے کہ ہو کیا رہا ہے

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک چیز تو یہ ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ ماضی کے ادوار میں بھی مختلف انداز میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کسی بھی حکومت یا سیاسی جماعت نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔
انہوں نے کہا کہ ‘اب جس تیزی سے لوگ پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ اس کی وجہ صرف 9 مئی کے واقعات نہیں ہیں۔
’جس تیزی سے پی ٹی آئی کے لوگوں نے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کیے، اس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کچھ مزاحمت کا مظاہرہ کریں گے لیکن ایسا ہوا نہیں۔

’نئی چیز، پارٹی بدلنے کی بجائے سیاست چھوڑنے کے اعلانات

مظہر عباس نے کہا کہ ’لوگوں کو اندازہ ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ سیاسی رہنما کیوں پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ ایک اہم اور نئی چیز یہ بھی کہ ان میں بہت سے لوگ کسی دوسری پارٹی میں جانے کا اعلان نہیں کر رہے بلکہ وہ سیاست چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی پریس کانفرنس کے ذریعے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

تحریک انصاف کے مستقبل سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’وقتی طور پر لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔ اب اگر عمران خان نے اس سب سے کچھ سبق سیکھا تو ممکن ہے کہ سیاسی وابستگی ختم کرنے والے دوبارہ ان کے ساتھ جا ملیں۔
’سیاسی جماعتوں کو توڑ کر ’حقیقی‘ کے نام سے انہیں نئے انداز میں متعارف کرانے سے پارٹی کا ووٹر تقسیم نہیں ہوتا، وہ خاموشی اختیار کر لیتا ہے اور مناسب وقت کا انتطار کرتے ہیں۔

’سیاست کا تالاب مزید گدلا ہو گا

سینیئر تجزیہ کار اور دانشور وجاہت مسعود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ماحول دیکھ کر سوال تو بنتا ہے کہ کیا ان لوگوں کو 9 مئی کے واقعات کی مذمت کا خیال 22 مئی کے بعد آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اب لگتا یہ ہے کہ نئی کنگز پارٹی بنے گی جیسے قاف لیگ بنی تھی اور اس سے سیاست کا تالاب مزید گدلا ہو گا۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے سیاست چھوڑنے کے اعلانات پر ان کا کہنا تھا کہ ’جو حقیقی سیاست دان ہوتا ہے، وہ کیسے سیاست چھوڑ سکتا ہے۔ ماضی میں بھی کئی سیاسی رہنما اڈیالہ جیل میں رہے لیکن ان میں سے کسی نے سیاست نہیں چھوڑی۔
وجاہت مسعود نے مستقبل کے ممکنہ سیاسی منظرنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اکتوبر 2023 کے بعد بھی ایک منقسم پارلیمنٹ بنے گی اور یہ دکھائی نہ دینے والی غیرسیاسی قوتوں کے مفاد میں ہوتا ہے۔
’اس وقت جو ہو رہا ہے، یہ جمہوریت کے لیے اچھی نہیں بلکہ بری خبر ہے۔

’اپنے صحافتی کیریئر میں ایسا نہیں دیکھا‘

تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کرنے والے بیشتر افراد نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنسیں کی ہیں۔ پریس کلب کے صدر انور رضا نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’میں نے اپنے 25 سالہ صحافتی کیریئر میں ایسا ہوتا نہیں دیکھا۔

اس وقت راولپنڈی کی مشہور اڈیالہ جیل اور اسلام آباد کا نیشنل پریس کلب سیاسی منظر نامے پر زیادہ زِیربحث ہیں۔ (فائل فوٹو: نیشنل پریس کلب)

یہ رہنما اس وقت پریس کانفرنس کے لیے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کر رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انور رضا نے بتایا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ تمام میڈیا یہاں آسانی سے پہنچ جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ سیاسی رہنماؤں کو علم ہوتا ہے کہ یہاں انتظامیہ کی نگرانی میں نظم و ضبط قائم رہتا ہے۔ ہلڑ بازی یا جوتے اچھالے جانے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ یہاں اپنی بات کھل کر کہہ سکتے ہیں۔
قبل ازیں جمعرات کو پی ٹی آئی رہنماؤں کے پے در پے پارٹی یا سیاست چھوڑنے کے اعلانات پر ردعمل دیتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اسے ’جبری طلاق‘ قرار دیا تھا۔
26 مئی کو نیشنل پریس کلب کے کانفرنس حال کی ’رونق‘ برقرار رہی۔ پریس کلب کے باہر میڈیا کی ڈی ایس این جی وینوں کی اور اندر کیمروں کی قطاریں بدستور لگی ہوئی تھیں۔ صبح سے شام وقت تک دو پریس کانفرنسیں بھی ہوئیں۔
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ابھی تک اڈیالہ جیل ہی میں ہیں۔ ان کے نیشنل پریس کلب کی جانب سفر کی کوئی خبر یہ سطور لکھنے تک سامنے نہیں آئی۔

شیئر: