Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آواران: سینکڑوں بچوں کو مفت تعلیم دینے والی ٹیچر نے خودکشی کیوں کی؟

ٹیچر کے والد دلسرد بلوچ کہتے ہیں کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے (فوٹو: گلزار دوست بلوچ)
’میری بیٹی کو اپنے گاؤں کے بچوں کے مستقبل کی بڑی فکر رہتی تھی کیونکہ پورے علاقے میں ایک بھی سکول نہیں تھا۔ اس نے اپنی جمع پونجی سے گھر کے سامنے جھونپڑی بنا کر خود ہی بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ گذشتہ تین برسوں میں جھونپڑی نما سکول کے بچوں کی تعداد تین سو تک پہنچ گئی تھی، لیکن آج یہ سب بچے ایک بار پھر تعلیم سے محروم ہوگئے۔‘
یہ الفاظ بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے گیشکور کی رہائشی 22 سالہ نجمہ کے والد دلسرد بلوچ کے ہیں جن کی بیٹی نے 15 مئی کو  گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی تھی۔
دلسرد بلوچ کہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو اپنی جان لینے پر مجبور کیا گیا۔ یہ خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے۔ انہیں لیویز اہلکار اور ان کے دو ساتھی  ہراساں کررہے تھے۔ ’میری بیٹی نے اپنی اور خاندان کی عزت بچانے کے لیے جان دی۔‘
سینکڑوں بچوں کو مفت پڑھانے والی نجمہ کی نا گہانی موت پر نہ صرف گاؤں بلکہ پورے ضلع میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر آواران خسرو دلاوری کے مطابق نجمہ بلوچ کی خودکشی کے واقعہ کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ ’ڈپٹی کمشنر آواران نے لیویز اہلکار کو معطل کر کے میری سربراہی میں انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ پولیس نے لواحقین کی درخواست پر لیویز اہلکار سمیت تین ملزمان کے خلاف آواران کے گیشکور تھانے میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔‘
سب انسپکٹر داد محمد نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ لواحقین نے واقعہ کے 12 دنوں بعد ہمیں درخواست دی جس پر ہم نے سوموار کو نجمہ کے چچا دلمراد بلوچ کی مدعیت میں لیویز اہلکار نور بخش، ولی یوسف اور سدھیر کے خلاف قتل بالسبب اور جنسی ہراسگی سے متعلق تعزیرات پاکستان کی دفعات  322اور509 کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس نے ملزم سدھیر کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ باقیوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
دلسرد بلوچ کہتے ہیں کہ ’نجمہ کو شروع سے ہی پڑھائی کا بڑا شوق تھا اس لیے میں اسے پڑھانے کے لیے قریبی شہر حب چوکی لے گیا تھا۔ وہاں اس نے 12 ویں تک پڑھا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آئی تو انہیں گاؤں کے بچوں کی فکر ستانے لگی، کیونکہ ان کی تعلیم ضائع ہو رہی تھی اور سکول نہ ہونے کی وجہ سے وہ سارا دن کھیلنے کودنے میں گزار دیتے۔‘
انہوں نےبتایا کہ 300 سے زائد گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں کوئی سرکاری اور نہ ہی نجی سکول ہے۔ ’نجمہ نے تین سال قبل کچھ رقم جمع کر کے گھر کے سامنے جھونپڑی بنا کر اس میں بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ وہ بچوں کو نہ صرف مفت پڑھاتی تھیں بلکہ ان کے لیے کتابوں کا بندوبست بھی خود کرتی تھیں۔ دوسرے گاؤں کے سرکاری سکولوں سے جا کر کتابیں لاتی تھیں تاکہ ان کے غریب والدین پر مالی بوجھ نہ پڑے۔‘
اہلخانہ کے مطابق جھونپڑی نما سکول نجمہ کو بہت پیارا تھا اور وہی اس کی ساری دنیا تھی۔ اسے اس سکول سے کوئی تنخواہ ملتی تھی اور نہ ہی وہ بچوں سے کوئی فیس لیتی تھی اس کے باوجود وہ پورا وقت دیتی۔ کبھی بلاوجہ چھٹی نہیں کرتی کہ بچوں کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔ روزانہ صبح سویرے اٹھ کر گھر کے کام کرتی اس کے بعد سکول جاتی۔
سماجی اور انسانی حقوق کے کارکن گلزار دوست بلوچ نے بتایا کہ وسائل کی کمی کے باوجود نجمہ نے جھونپڑی کو ایک مناسب کلاس روم کی شکل دی تھی۔ اس میں کرسی، میز، بلیک بورڈ، چارٹ اور بچوں کے بیٹھنے کے لیے ٹاٹ بچھائے گئے تھے۔

دلسرد بلوچ نے بتایا کہ ’بیٹی مجھ سے بھی سکول کے لیے رقم مانگتی رہتی تھی۔‘ (فوٹو: عیوض بلوچ)

دلسرد بلوچ نے بتایا کہ دو سال پہلے بھتیجے سے نجمہ کی شادی کرائی اس کے بعد بھی اس نے بچوں کو پڑھانا بند نہیں کیا بلکہ دبئی میں موجود شوہر سے بھی رقم منگوا کر اس پر خرچ کرتی تھیں۔
نجمہ کے والد چھوٹے زمیندار ہیں اور وہ گھر کے اخراجات پورا کرنے کے لیے ایرانی تیل کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والی زمباد گاڑی بھی چلاتے ہیں۔ دلسرد بلوچ نے بتایا کہ ’بیٹی مجھ سے بھی سکول کے لیے رقم مانگتی رہتی تھی۔ تین سالوں کے دوران اس نے دو سے تین لاکھ روپے سکول پر خرچ کیے۔ دو بار سکول تیز ہواؤں اور سیلاب کی وجہ سے تباہ بھی ہوا اس کے باوجود بھی اس نے ہمت نہیں ہاری۔‘
نجمہ کی خودکشی
دلسرد بلوچ کے مطابق ’کچھ عرصہ پہلے لیویز اہلکارکی جانب سے تنگ کرنے پر بیٹی نے شکایت کی تو میں نے اہلکار کو بلایا جس پر اس نے معافی مانگ لی، لیکن اس کے بعد بھی لیویز اہلکار باز نہیں آیا۔ وہ ٹیلیفون کر کے بیٹی کو تنگ کرتا تھا۔ جب وہ سم تبدیل کر دیتی تو نئے نمبر پر بھی اس کی کال آ جاتی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ نجمہ کا شوہر دبئی میں ملازمت کرتا ہے جب کہ میں کام کے سلسلے میں کبھی گھر سے باہر رہتا ہوں اس لیے نجمہ دن کو سکول اور شوہر کے گھر کے کام کر کے رات کو اپنی والدہ اور بہن کے پاس ٹھہرتی تھیں۔
’خودکشی سے چند دن پہلے نجمہ نے گھر والوں کو بتایا کہ لیویز اہلکار اور اس کے دوست انہیں ہراسا ں کر رہے ہیں اور غلط تعلق قائم کرنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بالآخر میری بیٹی لیویز اہلکار اور اس کے ساتھیوں کی ہراسگی سے اتنی تنگ آ گئی کہ ایک دن سکول سے واپس آ کر اس نے گلے میں پھندا ڈال کر اپنی جان دے دی۔ نجمہ نے بلیک بورڈ پر انگریزی میں آخری الفظ یہ لکھے تھے  ‘The story ends here’ یعنی کہانی یہاں ختم ہوتی ہے۔
نجمہ کے والد کا کہنا ہے کہ ’میری بیٹی ملزمان کو کہتی تھی کہ وہ موت کو قبول کر لے گی، لیکن اپنی عزت پر آنچ نہیں آنے دے گی اور اپنے ابو اور خاندان کا سر نہیں جھکنے دے گی اور پھر اس نے اپنی عزت بچانے کے لیے جان دے بھی دی۔‘
دلسر دبلوچ نے کہا کہ ’میری بیٹی کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ میرے خاندان کے ساتھ ظلم ہوا ہے مجھے انصاف چاہیے۔ میری بیٹی سے پورے گاؤں کے لوگ محبت کرتے تھے سب اس کی بہت عزت کرتے تھے۔ ان چند ظالموں سے پورا گاؤں تنگ ہے انہوں نے میری بیٹی کا قتل کیا ہے۔‘

گلزار دوست بلوچ کہتے ہیں کہ نجمہ بلوچ کی موت پر انہوں نے پورے گاؤں میں غم و غصہ دیکھا (فوٹو: گلزار دوست بلوچ)

نجمہ بلوچ کی موت پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ حکومت سے معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن گلزار دوست بلوچ  نے تربت سے گیشکور آواران جا کر لواحقین اور گاؤں کے لوگوں کے ہمراہ پولیس کے سامنے احتجاج کیا۔
گلزار دوست بلوچ کہتے ہیں کہ نجمہ بلوچ کی موت پر انہوں نے پورے گاؤں میں غم و غصہ دیکھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سے ایک گھر نہیں سارا گاؤں متاثر ہوا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سینکڑوں بچوں سے ان کی ٹیچر ہی نہیں تعلیم بھی  چھین لی گئی ہے۔
گلزار دوست بلوچ کا کہنا ہے کہ لیویز اہلکار اور ان کا گروہ سکیورٹی افسران کے نام پر اہلخانہ کو ڈراتے تھے جبکہ اس معاملے میں ان افسران کا کوئی کردار نہیں - ملزمان صرف ان کا نام غلط استعمال کرکے بلیک میلنگ کررہے تھے۔

شیئر: