دوران حراست زیادتی: خواتین قیدیوں کی حفاظت پر قانون کیا کہتا ہے؟
دوران حراست زیادتی: خواتین قیدیوں کی حفاظت پر قانون کیا کہتا ہے؟
پیر 29 مئی 2023 18:15
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
فوٹو: عمران خان نے گرفتار خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
سنیچر کی نصف شب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اچانک ٹیلی ویژن سکرینوں پر نمودار ہوئے اور انکشاف کیا کہ جاسوس اداروں نے ٹیلی فون کالز سنی ہیں جن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف خواتین کارکنوں کے ساتھ زیادتی کا الزام لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس سے اگلے روز پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے ویڈیو لنک پر اپنے خطاب میں کہا کہ رانا ثنا اللہ نے یہ پریس کانفرنس اس خوف سے کی ہے کہ خواتین سے کی گئی زیادتی کی اطلاعات سامنے آجائیں گی اور اس سے بچنے کے لیے انہوں نے پہلے ہی اس معاملے کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔
عمران خان نے مطالبہ کیا کہ اعلٰی عدلیہ اس معاملے پر سو موٹو ایکشن لے اور خواتین کو رہا کروائے۔
اس کے جواب میں نگراں وزیراعلٰی پنجاب محسن نقوی نے ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر اور ایس ایس پی پنجاب پولیس انوش مسعود پر مشتمل خواتین آفیسرز کی ایک دو رکنی کمیٹی بنائی جس نے پیر کے روز لاہور میں قید پی ٹی آئی کی خواتین قیدیوں سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انوش مسعود نے کہا کہ وہ خدیجہ شاہ سمیت تمام خواتین قیدیوں سے مل کر آئی ہیں اور جیل کے اندر کے حالات تسلی بخش ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جیل میں ہر قسم کی سہولت موجود ہے اور میڈیکل سپیشلسٹ، ماہر نفسیات اور گائناکالوجسٹ بھی موجود رہتی ہیں جو کسی بھی شکایت پر مریضوں کا معائنہ کرتی ہیں۔
انوش مسعود کا کہنا تھا کہ جیل میں موجود خواتین سیاسی قیدیوں کو روزانہ صاف بستر، صاف پانی، پڑھنے کے لیے کتابیں اور بعض واقعات میں گھر سے کپڑے بھی منگوا کر دیے جا رہے ہیں۔
حراست کے دوران خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک کے متعلق پی ٹی آئی اور اس کے مخالفین کے الزامات اور جوابی الزامات کے بعد یہ معاملہ اب ایک اہم موضوع بن گیا ہے جو ہر طرف زیر بحث ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کو حراست اور جیل میں قید رکھنے کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے اور ان کی حفاظت کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے جانا ضروری ہیں۔
سینیئر قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ صرف خواتین پولیس اہلکار ہی کسی خاتون کو گرفتار کرنے کی مجاز ہوتی ہیں اور وہی تفتیش کر سکتی ہیں۔
خالد رانجھا کے مطابق ایسے تھانے میں خاتون ملزمان کو نہیں رکھا جا سکتا جہاں پر خواتین پولیس اہلکار موجود نہ ہوں، اور تھانے میں ضروری ہے کہ انہیں الگ حوالات میں رکھا جائے جہاں مرد اہلکاروں اور ملزمان کی موجودگی نہ ہو۔
’جیل میں بھی خواتین کا حصہ مکمل طور پر الگ ہوتا ہے اور ضروری ہوتا ہے کہ اس میں خواتین جیلرز ہی ڈیوٹی کریں۔ خواتین کے اندر مرد اہلکاروں کا آنا جانا کسی طور قابل قبول نہیں ہوتا۔‘
تاہم خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اکثر ان ضوابط کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں۔
’ایسی اطلاعات ملتی رہی ہیں کہ تھانوں اور جیلوں کے اندر خواتین سے غیر مناسب سلوک کیا گیا ہے، خاص کر بیمار اور حاملہ خواتین کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوتی۔‘
سینیئر قانون دان عارف چوہدری کے مطابق جیل میں خواتین کے حصے میں مرد اہلکار کسی صورت داخل نہیں ہو سکتا اور یہ جیل سپریٹنڈنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد کوئی بھی خاتون ریاست کی حفاظت میں آ جاتی ہے اور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے غیر مناسب سلوک یا زیادتی کے بارے میں وہ شکایت کر سکتی ہے۔
’اگر کسی اہلکار نے ان کے ساتھ کوئی غیر مناسب رویہ رکھا ہے تو وہ اس کی شکایت جیل سپریٹنڈنٹ سے کر سکتی ہیں اور اگر جیل سپریٹنڈنٹ خود اس کا ذمہ دار ہے تو وہ آئی جی جیل خانہ جات یا وزیر داخلہ کو اس کی شکایت کر سکتی ہیں۔‘
لاہور ہائیکورٹ بار ملتان بینچ کی نائب صدر رابعہ منال کا کہنا ہے کہ ہمارا قانون اور انسانی حقوق جیلوں کے اندر قیدیوں کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔ قانون کے مطابق خواتین قیدیوں کے لیے الگ حوالات، جیل کی بیرکس اور دیکھ بھال اور نگرانی کے لیے خواتین اہلکار ہونی چاہئیں۔‘
’اگر ان قوانین کی خلاف ورزی ہو تو وہ متعلقہ فورم پر اس کے خلاف شکایت درج کروا سکتی ہیں۔‘
عمومی طور پر پاکستان میں خواتین جیلوں کی حالت بہتر ہے اور شکایات کم ملتی ہیں تاہم حال ہی میں گرفتار ہونے والی خواتین سیاسی کارکنوں کے ساتھ غیر مناسب رویے کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔
’جو اطلاعات مل رہی ہیں کہ دوران حراست خواتین پر تشدد ہوا ہے اور جس طرح کی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ حکومت کے انتقامی بیانات کا بھی جائزہ لیا جائے تو شائبہ ہوتا ہے کہ یہ ویڈیوز درست ہو سکتی ہیں اور ایسا ممکن ہے کہ کہیں پر خواتین سیاسی قیدیوں پر تشدد یا ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ہو۔‘
’تاہم اس سے ہٹ کر عام حالات میں پاکستانی جیلوں میں صورتحال کافی بہتر ہے۔‘