Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا عمران خان کی موجودہ حکمتِ عملی کامیاب ثابت ہو گی؟ 

تجزیہ کاروں کے مطابقخود کو نااہلی سے بچانا عمران خان کی حکمت عملی کا اب بھی اہم پہلو ہے۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب) 
پاکستان تحریک انصاف اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ 100 سے زائد رہنما اور کارکن پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی رُکا نہیں ہے۔ 
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید رہنما پارٹی چھوڑ جائیں گے اور جماعت کو انتخابات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
عمران خان کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعات کے منفی اثرات سے خود کو اور اپنی جماعت کو بچانے کے لیے’نئی حکمت عملی ترتیب دے چکے ہیں اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔‘ 
عمران خان کا کہنا ہے کہ پُرامن احتجاج ان کے کارکنوں کا بنیادی حق ہے اور یہ کہ ان کی پارٹی کے ارکان اور کارکنوں پر پارٹی چھوڑنے کے لیے سخت دباؤ ہے اور ان کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔  
پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کے مطابق عمران خان انتخابی سیاست اور پاکستان کے سیاسی ماحول کے مطابق اپنی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ 
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ختم ہو رہی ہے یا اس کا کردار محدود ہو رہا ہے بلکہ درحقیقت اس کی مقبولیت اور ووٹ بینک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 
’جن جن حلقوں سے پی ٹی آئی کے رہنماؤں یا امیدواروں نے پارٹی چھوڑی ہے وہاں سے نئے اور نوجوان کارکن سامنے آرہے ہیں اور درحقیقت پارٹی کو موقعہ مل گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو سامنے لایا جائے۔ 
ان کے مطابق پی ٹی آئی کے نوجوان ورکر اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور حلقوں میں لوگ تحریک انصاف چھوڑ کر جانے والوں کو ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ 
’ہمیں انتخابی مہم چلانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اب لوگ بے شعور نہیں رہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ جس کے پاس پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہو گا، وہی جیتے گا۔‘ 

سیکریٹری اطلاعات پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ہمیں انتخابی مہم چلانے کی ضرورت نہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انتخابات کے انعقاد کے لیے جدوجہد 
رؤف حسن کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف کو غیر جمہوری طریقوں سے انتخابات سے باہر کیا جاتا ہے یا نقصان پہنچایا جاتا ہے تو ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور قانونی عمل کا سہارا لیں گے۔ 
دوسری طرف سوشل میڈیا پر بھی پی ٹی آئی اور اس کے حمایتیوں نے 9 مئی کے واقعات کے اثرات سے باہر آنا شروع کر دیا ہے اور ان سے منسلک اکاؤنٹس دوبارہ سے جارحانہ مہم چلا رہے ہیں۔ 
گذشتہ چند روز سے کچھ ایسے ٹرینڈز چلائے گئے ہیں جن کے ذریعے پارٹی چھوڑنے سے انکار کرنے والوں اور ان کے بیانات کو فروغ دیا گیا ہے اور پارٹی کے مخالفین اور اس سے استعفیٰ دینے والوں پر تنقید کی جا رہی ہے۔ 
سینیئر سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کے مطابق عمران خان کی موجودہ حکمت عملی یہ ہے کہ وہ پارٹی کو پہنچنے والے نقصانات کو جتنا کم کر سکیں کریں۔ 
’فی الحال وہ نقصانات پر قابو پانے اور یہاں سے پارٹی کو آگے لے جانے کے لیے ایک حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں۔‘

پرویز خٹک نے یکم جون کو تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

حسن عسکری کہتے ہیں کہ ان کی کوشش ہے کہ مقدمات سے ضمانتیں حاصل کرتے رہیں اور انتخابات آنے تک نقصانات کم کر کے پھر انتخابی سیاست کے لیے ایک واضح لائحہ عمل اختیار کریں۔‘ 
ان کے مطابق ’اس کے ساتھ ساتھ عمران خان اپنی تقاریر کے ذریعے کارکنوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔‘ 
نااہلی سے بچنا 
انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی احمد اعجاز کا کہنا ہے کہ خود کو نااہلی سے بچانا اور انتخابات کی طرف جانا عمران خان کی حکمت عملی کا اب بھی اہم پہلو ہے۔ 
’عمران خان کے پیش نظر پارٹی چھوڑ کر جانے والے نہیں بلکہ یہ ہے کہ انہوں نے خود کو نااہل ہونے سے کیسے بچانا ہے۔ کیونکہ انہیں پتا ہے کہ چھوڑ کر جانے والوں کی جگہ ایسے افراد موجود ہیں جو ان کے ٹکٹ پر الیکشن جیت سکتے ہیں۔‘ 

9 مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کے کارکن پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

احمد اعجاز کے مطابق ’اس کے ساتھ ساتھ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کروانا چاہتے ہیں۔ اب ان کے لیے مسئلہ اکتوبر میں الیکشن کا انعقاد نہیں بلکہ انتخابات کا انعقاد ہے۔‘ 
تاہم احمد اعجاز کا کہنا تھا کہ عمران خان سیاسی طور پر بہت کمزور ہو چکے ہیں اور انتخابات سے پہلے ان کی گرفتاری ان کی پارٹی کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہے۔ 
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے اس بارے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ایک سال میں عمران خان نے اپنے لیے جو بھی ہدف مقرر کیا اس میں انہیں ناکامی ہوئی، اور آنے والا ہر دن ان کے اقدامات کی وجہ سے ملک اور خود ان کے لیے بے یقینی میں اضافہ کر رہا ہے۔ 
’9 مئی کے واقعات عمران خان کا تعاقب کر رہے ہیں۔ اگر وہ اس راستے پر رہیں گے جس پر اب ہیں تو دیکھنا ہو گا کہ وہ اس پر چل کر انتخابات تک پہنچ سکیں گے یا نہیں۔‘

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان سیاسی قوتوں سے بات چیت کی کوشش کریں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ آزادانہ حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ وہ میدان میں موجود نہ رہیں۔‘ 
’عمران خان کے اپنے اقدامات ابہام میں اضافہ کر رہے ہیں۔ وہ فی الحال گرفتاری سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کا سیاسی جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ رابطہ نہیں ہے۔‘
مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ کارکنوں اور حمایتیوں کے جذبات کو ٹھنڈا کریں۔‘
’سیاسی قوتوں سے بات چیت کی کوشش کریں اور انتخابات کی تاریخ اور انتظامات پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ اسی سے مستقبل کا راستہ نکلے گا۔‘

شیئر: