Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہمارے پر ٹوٹ چکے ہیں‘، شام کی کُرد سنگرز کے سُروں پر داعش کا خوف

پروین اور نورشین کو داعش کے خوف سے گھر چھوڑنا پڑا (فوٹو: اے ایف پی)
شام سے تعلق رکھنے والی کُرد بہنیں جب کوئی ایسا غمگین سُر کھینچتی ہیں جس میں کچھ کھونے کا ذکر ہو تو وہ سیدھا دل سے اٹھتا اور دلوں میں اترتا محسوس ہوتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 20 اور 23 سالہ پروین اور نورشین صالح کو شمالی شام کے قصبے کوبانی میں واقع اپنے گھر کو دو مرتبہ چھوڑنا پڑا تھا ایک بار داعش کی وجہ سے اور دوسری بار ترکیہ کی جانب سے بموں کے خطرے کے پیش نظر، اور وہ خاندان والوں کے ساتھ دوسرے علاقوں میں جانے پر مجبور ہوئی تھیں۔
 اب ان کو شمالی عراق کے کُرد علاقے میں ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا ہے جہاں وہ رہائش پذیر ہیں اور ایک ریسٹورنٹ میں گیت گا کر اپنے اخراجات پورے کر رہی ہیں۔
20 سالہ پروین صالح، جو سنتور بجاتی ہیں، کا کہنا ہے کہ’فوک کُرد گانے ہمیں بھی پسند ہیں اور سننے والے بھی پسند کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’لوک گانوں میں کردوں کے دکھوں، جنگوں، قتل عام اور اپنے علاقوں سے دربدر ہونے کا ذکر ہوتا ہے۔‘
کرد ایک غیرعرب نسلی گروہ ہے جن کی تعداد ڈھائی سے ساڑھے تین کروڑ ہے جن میں سے زیادہ ترکیہ، شام اور عراق، ایران میں رہائش پذیر ہیں۔

دونوں بہنیں گانے کے علاوہ آلات موسیقی بھی بجاتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

کُرد شام میں 12 سالہ خانہ جنگی سے بری طرح متاثر ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے ان کو دبایا گیا جن میں سب سے زیادہ کردار داعش کا رہا۔
جب جنگجوؤں نے 2014 کے اواخر میں کوبانی پر حملہ کیا اور علاقے میں شدید جنگ چھڑ گئی تب دونوں سنگر بہنیں اپنے گھروالوں کے ساتھ ترکیہ طرف نقل مکانی کر گئی تھیں۔
استنبول میں کئی ماہ کافی مشکلات میں گزارنے کے بعد کرد آبادی والے شہر دیاربیکر منتقل ہوئے اور وہاں موسیقی کی تعلیم جاری رکھی۔
2019 میں حالات بہتر ہونے پر وہ واپس شام لوٹیں کیونکہ امریکہ کی مدد سے وہاں سے داعش کو نکال دیا گیا تھا۔
اس دوران ترکیہ نے شمالی شام کے بعض علاقوں پر حملے جاری رکھے جس کے بارے میں انقرہ کا کہنا ہے کہ وہ کرد عسکریت پسندوں کے خلاف کیے جاتے ہیں۔
سنگر بہنوں کا کہنا ہے کہ ایک بار ایک مارٹر شیل ان کے گھر میں آ کے گرا تاہم وہ پھٹا نہیں۔

پناہ گزین بہنیں آج کل ایران کے ایک ریستوران میں پرفارم کرتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

پچھلے برس جب ترکیہ نے فضائی اور زمینی حملے شروع کیے تو بہنوں کو ایک بار پھر گھر چھوڑنا پڑا اور اس بار انہوں نے عراق کا رخ کیا اور اربل کے علاقے میں کرائے پر رہتی ہیں۔
سنگر بہنوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے گھر میں پرورش پائی جہاں موسیقی کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔
’ماں ہمیں سونے سے قبل گانا سناتی تھیں جب اس دوران والد باجا بجاتے۔‘
تاہم اس کے بعد انہیں جن صدموں کا سامنا کیا اس کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔
پروین کہتی ہیں کہ ’داعش کے لوگوں کا منظر آج بھی یاد ہے اور ڈراتا ہے۔ کالا لباس پہنے، کالے جھنڈے اٹھائے لوگ، جو زندگی کو کالا کرنے کی جستجو میں تھے۔‘

پروین صالح کہتی ہیں کہ انہیں آج بھی داعش کے ڈراؤنے خواب آتے ہٰیں (فوٹو: اے ایف پی)

اپنے ایک حالیہ کنسرٹ میں پروین نے فلیوٹ بجایا جبکہ 23 سالہ نورشین نے اپنی مدھر آواز میں فوک کردش گانا گا کر سننے والوں کو مدہوش کر دیا جس میں اپنے گھروں سے بے گھر ہونے کا ذکر تھا۔
اس گانے کے بول تھے ’میری ماں میں تمھارے بغیر اجنبی ہوں۔ میرے پر ٹوٹ چکے ہیں اور اپنے ملک سے باہر زندگی ایک قید کی مانند ہے۔‘
نورشین نے پروگرام کے دوران پیانو، گٹار، کمانجا اور دوسرے آلات موسیقی بھی بجا کر حاضرین سے داد حاصل کی۔
لیکن اس کے باوجود بھی ابھی تک ان کے ذہنوں سے داعش کا خوف نہیں اترا۔
نورشین نے کہا کہ ’مجھے داعش سے متعلق ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔‘

پروین اور نورشین شام سے نقل مکانی کے بعد آج کل عراق میں رہتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری بار جان بچا کر بھاگنے والی بہنوں کو ایک اور خوفناک واقعے کا بھی سامنا ہوا تھا۔
اس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’بارڈر پر شامی فوجیوں نے گانا گانے کا کہا اور ساتھ دھمکی بھی دی کہ اگر پسند نہ آیا تو موسیقی کا سامان ضبط کر لیا جائے گا۔‘
’جب ہمارا گانا ختم ہوا تو وہ مسکرائے اور کہا کہ آپ جا سکتے ہیں۔‘

شیئر: