Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روسی تیل کے پاکستان پہنچنے میں مسائل کیا ہیں؟

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا تھا کہ روس پاکستان کو خام تیل کے علاوہ ڈیزل اور پیٹرول بھی فراہم کرے گا۔ فوٹو:اے ایف پی
پاکستان کی اتحادی حکومت گزشتہ کچھ عرصے سے روس سے خام تیل کی پہلی کھیپ آنے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن ابھی تک روسی تیل بردار جہاز پاکستان نہیں پہنچ سکے ہیں۔ 
اس حوالے سے پاکستان کے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک بھی ایک سے زائد مرتبہ تاریخوں کا اعلان کر چکے ہیں اور انہوں نے پیٹرولیم مصنوعات کے سستا ہونے کی خوشخبری بھی دی۔
مصدق ملک نے منگل کو اپنے تازہ بیان میں کہا کہ ’روس سے سستا تیل پاکستان آنے والا ہے۔ جیسے ہی روس سے تیل آئے گا، قیمتیں کم ہونا شروع ہو جائیں گی۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’آج یا کل تک روس سے جہاز آ جائے گا۔‘
حکومتی دعوؤں میں تضادات 
وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کے روس سے تیل کی برآمد سے متعلق بیانات میں فرق بھی دیکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے گذشتہ برس دسمبر میں روس کے دورے سے واپسی پر کہا تھا کہ ’روس سے سستا تیل لینے کا معاملہ آگے بڑھ رہا ہے اور جنوری کے دوسرے ہفتے میں روس کی ٹیم پاکستان آئے گی۔‘
پھر دسمبر ہی میں پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرادری نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’روس سے رعایتی ایندھن لینے کی کوشش کر رہے ہیں اور نہ ہی حاصل کر رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر مصدق ملک نے اس وقت یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ’روس پاکستان کو خام تیل کے علاوہ ڈیزل اور پیٹرول بھی دے گا اور رعایتی نرخوں پر دے گا۔‘
بعدازاں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم نے 30 مئی کو ’پاکستان انرجی کانفرنس 2023‘ میں اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ’بحری جہاز عمان پہنچ چکے ہیں اور پاکستان کو سستے تیل کی سپلائی ایک ہفتے میں شروع ہو جائے گی۔‘

روس سے تیل پہنچنے میں مسلسل تاخیر نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ماضی کے بیانات کے برعکس انہوں نے کہا تھا کہ ’تیل کے ایک جہاز سے قیمت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ایک بار جب سپلائی مستقل ہو جائے گی، ایندھن کی قیمت بتدریج کم ہونا شروع ہو جائے گی۔‘
منگل کو پاکستان کے مقامی میڈیا نے یہ خبریں نشر کرنا شروع کیں کہ روس کا تیل بردار جہاز بدھ (سات جون) کو عمان کی بندرگاہ پر پہنچے گا۔ عمان کی بندرگاہ پر جہاز کے پہنچنے کی تاریخوں سے متعلق بھی بیانات بدلتے رہے۔

تاخیر کی وجہ سے جنم لیتے سوالات  

پاکستان میں توانائی کے شعبے کا زیادہ تر دار و مدار درآمد ہو کر آنے والے ایندھن پر ہے جبکہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیتمیں ابھی تک کافی زیادہ تصور کی جا رہی ہیں۔  
روس سے خام تیل آنے کی خبروں کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید آئندہ دنوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بڑی کمی آجائے لیکن ابھی تک اس بارے میں حکومت کی کوئی واضح حکمت عملی یا پالیسی سامنے نہیں آئی۔ 
اب یہ کہا جا رہا ہے کہ عمان سے تیل کا پہلا جہاز جون کے دوسرے جبکہ دوسرا جہاز تیسرے یا چوتھے ہفتے میں پاکستان پہنچے گا۔ 
روس سے تیل پہنچنے میں مسلسل تاخیر نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ 
یہ سوال بھی زیرِ گردش ہے کہ ایک لاکھ ٹن خام تیل پاکستان آنے سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کتنی کمی متوقع ہے؟ اس سے پاکستان کی مجموعی معاشی حالت میں کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ کیا پاکستان کی آئل ریفائنری کے پاس اس خام تیل کو پراسس کرنے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں؟
معاشی امور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ روسی تیل تو پہنچنے والا ہے لیکن اس سے ابتدائی طور پر کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ 

تیل سستا ہو نے کی بات قبل از وقت‘

مہتاب حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شروع میں یہ توقع نہیں باندھی جا سکتی کہ فوراً ہی پاکستان میں تیل سستا ہو جائے گا۔ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کے مجموعی درآمدی بل میں روسی خام تیل کا شیئر کتنا رکھا جائے گا۔ اگر اس کے لیے زیادہ حصہ رکھا گیا تو پیٹرولیم مصنوعات سستی ہو سکتی ہیں۔‘

حلیق کیانی کا کہنا ہے کہ روس کی تیل کی مزید برآمد کا انحصار اس بات پر ہے کہ ریفائننگ کے عمل کے بعد اس کے نتائج کیا آتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی) 

یہ طویل المدتی معاہدہ ہے یا پھر ایک دو مرتبہ کی خریداری؟ اس سوال پر مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ ’ابھی اس کی تفصیلات واضح نہیں ہیں۔ پاکستان کی تیل کی ضروریات اور آئندہ دنوں کے درآمدی بِل سے اندازہ ہو گا کہ حکومت کیا چاہتی ہے۔‘

امریکہ کو پیغام دینے کی کوشش‘

روسی خام تیل لینے کے فیصلے کے بارے میں مہتاب حیدر کا خیال ہے کہ ’پاکستان امریکہ کو کوئی پیغام دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ بارٹر ٹریڈ کی جانب پیش رفت اور روسی خام تیل کی برآمد دونوں اسی ’پیغام‘ کی کَڑیاں ہیں۔‘
انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’روسی خام تیل تو پاکستان آ رہا ہے لیکن یہ پہلو ابھی تحقیق طلب ہے کہ آیا پاکستان میں موجود ریفائنریاں روسی خام تیل کو پراسس کر سکتی ہیں یا نہیں۔‘
معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم بھی روسی تیل کی درآمد کے بعد پیٹرولیم مصنوعات میں کسی کمی کی توقع نہیں رکھتے۔ 
ڈاکٹر فرخ سلیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ تو خود مصدق ملک کہہ چکے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘

مال برداری کی لاگت زیادہ ہو گی‘ 

انہوں نے کہا کہ ’دیکھیں روس سے جو تیل آئے گا، اس پر اندازاً 20 ڈالر فی بیرل کرایہ آئے گا جب کہ اس سے قبل جو سعودی عرب سے آتا ہے اس پر تین سے چار ڈالر فی بیرل کرائے کی مد میں لاگت آتی ہے۔ اب اگر روس 15 یا 20 ڈالر سستا بھی دیتا ہے تو خرچ پھر بھی زیادہ ہو جائے گا۔‘
پاکستان کی ریفائنری کی صلاحیت سے متعلق سوال کے جواب میں ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ ’ابھی تو روس سے پہلی کھیپ آ رہی ہے۔ میرا خیال ہے اس تیل کو دیگر ممالک سے آنے والے تیل کے ساتھ ملا کر پراسس کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
روس کے ساتھ معاہدہ کتنا دیرپا ہو سکتا ہے؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’رُوبلز ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ہم یوان میں ادائیگی کر رہے ہیں جن کی ہمارے پاس ویسے ہی کمی رہتی ہے۔‘

معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم روسی تیل کی درآمد کے بعد پیٹرولیم مصنوعات میں کسی کمی کی توقع نہیں رکھتے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ آئل ٹینکرز کی انشورنس کرنے والی اکثر کمپنیاں مغربی ممالک کی ہیں، وہ بظاہر ان ٹینکرز کی انشورنس نہیں کریں گی۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔‘

پہلی کھیپ آٹے میں نمک کے برابر‘ 

ڈاکٹر فرخ سلیم نے مزید کہا کہ ’ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں نئے آئل ٹینکرز نہیں بن رہے۔ جو ٹینکر یہ تیل لے کر آ رہا ہے وہ کراچی کی بندرگاہ پر نہیں آ سکتا، اس لیے اسے عمان لایا جائے گا۔‘ 
عمان سے چھوٹے جہازوں میں تیل پاکستان پہنچایا جائے گا جس سے اس کی مال برداری کی لاگت مزید بڑھ جائے گی۔ اس لیے ایک لاکھ ٹن تیل کی یہ کھیپ آٹے میں نمک کے برابر ہی ہو گی۔‘
پاکستان اور روس کے درمیان تیل کے معاہدے کے ضمن میں یہ سوال بھی زیربحث ہے کہ آیا پاکستان کو روس خام تیل اسی قیمت پر دے گا جتنی وہ انڈیا سے وصول کرتا ہے۔ 
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ ’انڈیا پچھلے 50 برس سے روس سے تیل درآمد کر رہا ہے اور وہاں روس نے اپنی آئل ریفائنری بھی قائم کر رکھی ہے۔ ہمارے پاس تو ایسا کچھ نہیں ہے۔‘

ابھی تو صرف جائزہ لیا جائے گا‘ 

معاشی تجزیہ کار خلیق کیانی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تو پہلی کھیپ ہے جو ٹیسٹ اور ٹرائل کے لیے منگوائی جا رہی ہے۔ اس کی افادیت کا جائزہ لے کر ہی مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جا سکے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’روس کی تیل کی مزید برآمد کا انحصار اس بات پر ہے کہ ریفائننگ کے عمل کے بعد اس کے نتائج کیا آتے ہیں۔‘ 

شیئر: