Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگ ن کے پارٹی انتخابات، تمام اہم عہدے شریف خاندان کے پاس

پاکستان کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے اپنے انٹرا پارٹی انتخابات میں مسلسل دوسری مرتبہ شہباز شریف کو صدر، مریم نواز کو سینیئر نائب صدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو پارٹی کا وزیر خزانہ یعنی سیکریٹری مالیات بھی منتخب کر لیا ہے۔
جمعے کو ہونے والے انتخابات کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن نے تمام عہدے شریف خاندان کو دیے ہیں تاہم سیکریٹری جنرل کا عہدہ شریف خاندان سے باہر احسن اقبال کے حصے میں آیا ہے۔
اس کے علاوہ ایڈیشنل سیکریٹری جنرل اور اور سیکریٹری اطلاعات کے عہدے بالترتیب عطا تارڑ اور مریم اورنگزیب کو ملے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کے بعد تاحیات اپنا قائد بھی منتخب کر چکی ہے۔
اس طرح اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے چار بڑے عہدے شریف خاندان کے پاس ہیں جن میں پارٹی قائد نواز شریف، پارٹی صدر شہباز شریف سینیئر نائب صدر مریم نواز اور سیکریٹری خزانہ اسحاق ڈار ہیں۔
مسلم لیگ ن کا اپنا آئین صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ وہ اپنی مرضی سے نائب صدور سمیت صوبائی صدور اور پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ اور ایگزیکٹو کونسل کے ارکان کا تقرر کر سکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل نے ان عہدیداروں کو منتخب کیا ہے جو اس سے قبل پچھلی ٹرم میں بھی ان عہدوں پر موجود تھے۔ اس لیے غالب امکان ہے کہ پارٹی صدر دیگر عہدوں پر بھی انہی افراد کو نامزد کریں گے جو پہلے سے پارٹی عہدوں پر موجود ہیں۔ ایسی صورت میں حمزہ شہباز بھی پارٹی کے نائب صدر مقرر کیے جا سکتے ہیں اور یوں پارٹی کے پانچ بڑے عہدے صرف شریف خاندان کے پاس موجود رہیں گے۔

مسلم لیگ ن نے اپنے انٹرا پارٹی انتخابات میں مسلسل دوسری مرتبہ شہباز شریف کو صدر، مریم نواز کو سینیئر نائب صدر منتخب کر لیا ہے۔ (فوٹو: مسلم لیگ ن)

یہ بھی یاد رہے کہ سنہ 2018 کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں شہباز شریف اور پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کے قائد حزب اختلاف بننے پر بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ کیونکہ اس وقت پنجاب اسمبلی میں پارٹی کے سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق بھی بطور ایم پی اے موجود تھے۔
اسی طرح پارٹی کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کی اپنے عہدے پر موجودگی کے باوجود مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر بنانے پر بھی کافی چہ مگوئیاں کی گئی تھیں۔ اگرچہ شاید خاقان عباسی اور مریم نواز نے ان چہ مگوئیوں کو رد کیا تھا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ شاہد خاقان عباسی اس فیصلے کے بعد پارٹی سے دور ہوتے گئے۔
جنرل کونسل کے اجلاس میں میں پارٹی کے نومنتخب صدر اور وزیراعظم شہباز شریف نے پارٹی فیصلوں بالخصوص اسحاق ڈار پر تنقید کرنے والوں کو کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’انہیں پارٹی میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔‘
بظاہر شہباز شریف کا نشانہ مفتاح اسماعیل تھے لیکن ان دنوں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح یک قالب دو جان ہیں۔ اس لیے شہباز شریف کی تنقید شاہد خاقان عباسی اور مفتاح دونوں پر سمجھی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر شہباز شریف، مریم نواز اور اسحاق ڈار کے بلامقابلہ منتخب ہونے پر ن لیگ کو فیملی روڈ پارٹی کہا جا رہا ہے لیکن یہ تنقید بھی نئی نہیں ہے۔ ماضی میں جاوید ہاشمی کو نظرانداز کیے جانے پر بھی شریف خاندان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر بنانے کے بعد سے شاہد خاقان عباسی پارٹی سے دور ہوتے گئے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

2009-10 میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی ختم کیے جانے کے بعد جب انہیں پارٹی صدر منتخب کیا گیا تو اس وقت جاوید ہاشمی کو سٹیج پر موجود ہونے کے باوجود کسی عہدے پر نامزد نہیں کیا گیا۔ جس کے بعد کنونشن سینٹر میں ہونے والے اجلاس میں تمام پارٹی کارکنان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے ہاشمی ہاشمی کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے۔ اس پر شہباز شریف نے ڈائس پر آ کر جاوید ہاشمی کو پارٹی کا سینیئر نائب صدر نامزد کرتے ہوئے کارکنان سے رائے لی اور یوں جاوید ہاشمی سینیئر نائب صدر منتخب ہو گئے۔
نواز شریف ان دنوں جاوید ہاشمی کی جانب سے پارٹی فیصلوں پر تنقید سے خائف تھے۔ اپنے انتخاب کے بعد جاوید ہاشمی نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میاں صاحب میں ایسی گستاخیاں کرتا رہوں گا۔‘

شیئر: