سوڈان میں تنازعات و جبری ہجرت: خواتین کے لیے نیا بحران
سوڈان میں تنازعات و جبری ہجرت: خواتین کے لیے نیا بحران
منگل 8 اگست 2023 20:12
مردوں سے الگ کر کے خواتین اور لڑکیوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فوٹو عرب نیوز
سوڈان میں مسلح افواج اور نیم فوجی ادارے ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان تنازعے کے باعث مختلف علاقوں سے جبری ہجرت صنفی بنیاد پر ایک نئے بحران کو جنم دے رہی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق افریقی ملک میں پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے یہاں خواتین اور لڑکیوں کو عصمت دری، انسانی سمگلنگ اور کم عمری کی شادی کے خطرات کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سوڈان میں 15 اپریل سے شروع ہونے والی شورش سے پہلے ہی 30 لاکھ سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں صنفی بنیاد پر مختلف قسم کے گھناؤنے مسائل کا شکار تھیں اب یہ تعداد بڑھ کر 42 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جو موجودہ جنگی حالات میں تباہ کن اثرات کی عکاسی کر رہی ہے۔
ایک سروے میں عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے 37 سالہ سوڈانی خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ جون میں ان کے گاؤں پر ریپڈ سپورٹ فورس کے جنگجوؤں نے حملہ کیا۔
گاؤں پر حملے میں زندہ بچ جانے کے بعد انہیں شمالی دارفور کے علاقے میں منتقل ہونا پڑا اور اس عرصہ میں ان کے شوہر اور کئی دیگر رشتہ دار اور احباب جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
دل دہلا دینے والی کیفیات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے انہیں اور دوسری خواتین کو پکڑ لیا اور مردوں سے الگ کر کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس دوران میں ایک جنگجو کی طرف سے جبری زیادتی کا نشانہ بن گئی جس کے بعد مجھے اپنے بچوں کو چھوڑ کر وہاں سے بھاگنا پڑا۔
سوڈانی خاتون نے بتایا کہ میرے بے گھر ہو جانے، پیاروں سے جدا ہونے اور غیر یقینی صورتحال میں رہنے کی تلخ حقیقتیں میرے لئے انتہائی بوجھل ہیں اور میری زندگی مسلسل جدوجہد بن چکی ہے۔
اپنے گروپ میں شامل دیگر بے گھر افراد کے لیے خوراک، صاف پانی اور پناہ گاہ کی تلاش میں ہمیں ہر وقت مشکل حالات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دوبارہ زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کا خوف ہر وقت میرا پیچھا کرتا ہے جو ایک مستقل کرب اور پریشانی کا باعث ہے۔
اس خوف اور کرب کی حالت سے مجھے قافلے میں موجود اجنبیوں کے بارے میں بے چینی اور بے اعتمادی رہتی ہے۔
میں یہاں اپنے ساتھ رہنے والوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن گھناؤنی یادیں مجھے ستاتی ہیں اور ایسی کیفیت میں کسی دوسرے پر بھروسہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔
مغربی دارفور کے شہر الجنینہ سے تعلق رکھنے والی خاتون نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جنگجوؤں کی جانب سے ان کے علاقے پر مئی میں حملہ کیا گیا، جس میں عام شہریوں پر تشدد کر بعد قتل کرنے اور جلانے کے علاوہ خواتین کی عصمت دری کے واقعات پیش آئے۔
انہوں نے بتایا کہ میں چھ بچوں کی ماں ہونے کے باوجود اس طرح کے ناقابل تصور مظالم کو بیان نہیں کر سکتی۔
انہوں نے مضبوط لہجے میں کہا کہ میں ان معصوم جانوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتی ہوں اور انصاف کے حصول کے لیے ہمارے حوصلے پرعزم ہیں۔
اس موقع پر میں صرف اپنے لیے نہیں بلکہ ہر اس معصوم اور بے گناہ کے لیے بات کرنا چاہتی ہوں جو اس ظلم کا نشانہ بنی ہے۔
گذشتہ جمعرات کو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے شائع ہونے والی تازہ رپورٹ میں سوڈان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف زیادتی کے متعدد واقعات کے علاوہ ہسپتالوں و گرجا گھروں پر حملوں اور متعدد علاقوں میں وسیع پیمانے پر لوٹ مار کی تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سوڈان میں انسانی حقوق کے مانیٹر ادارے کی رپورٹ میں درج کئی خلاف ورزیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔
متحارب فریقوں کے ارکان کی طرف سے درجنوں خواتین اور لڑکیاں جن میں سے کچھ کی عمریں 12 سال ہیں انہیں عصمت دری اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ متحارب گروپوں اور ان سے منسلک دیگر مسلح افراد کی جانب سے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا ختم ہونا چاہیے اور ان لوگوں کے لیے محفوظ راستے کی ضمانت دی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگی صورتحال سے متاثرین اور لواحقین کے لیے انصاف اور معاوضے کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
سوڈان میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ اسے تنازعات سے متعلق جنسی تشدد کے 21 واقعات کی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن میں 10 لڑکیوں سمیت کم از کم 57 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ایک ہی واقعے میں مبینہ طور پر 20 خواتین کے ساتھ زیادتی کی رپورٹ بھی سامنے آئی ہے۔
خواتین کے خلاف تشدد کا مقابلہ کرنے والے سوڈانی حکومت کے اپنے یونٹ نے دارالحکومت خرطوم میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے کم از کم 42 مبینہ کیسز اور دارفور کے علاقے میں 46 کیس درج کیے ہیں۔
علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ ندامت، بدنامی اور انتقامی کارروائی کے خوف کی وجہ سے رپورٹنگ بہت کم ہے جب کہ ایسے واقعات کی اصل تعداد ممکنہ طور پر کہیں زیادہ ہے۔