Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا، کینیڈا تنازع: سکھ خود کو اندرون اور بیرون ملک خطرے میں کیوں محسوس کرتے ہیں؟

انڈین پنجاب سے باہر سکھوں کی سب سے بڑی آبادی کینیڈا میں ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا اور کینیڈا کے درمیان سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل پر پیدا ہونے والے تنازع کے اثرات نہ صرف انڈین پنجاب کے سکھ محسوس کر رہے ہیں بلکہ ان کو خوف ہے کہ اس سے ان کے شمالی امریکہ میں اچھی زندگی کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہردیب سنگھ نجر جو انڈیا کو 25 سال قبل خیرآباد کہہ کر کینیڈین شہری بن گئے تھے، کو رواں برس جون میں ایک گردوارے کے باہر گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔ وہ خالصتان تحریک سے وابستہ رہنما تھے۔ اس تنظیم کا مقصد انڈین پنجاب پر مشتمل علیحدہ سکھ ریاست کا قیام ہے۔
گذشتہ ہفتے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ کینیڈا کے پاس قابل اعتبار شواہد ہے کہ نجر کے قتل میں ممکنہ طور پر انڈین ایجنٹ ملوث ہیں۔ اس بیان نے انڈیا اور کنینڈا کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات کو بحران سے دوچار کر دیا ہے۔
انڈیا، جس نے ہردیب سنگھ نجر کو 2020 میں ’دہشت گرد‘ قرار دیا تھا، نے کینیڈا کے الزامات کو برہمی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے انڈیا میں کینیڈین انٹیلیجنس کے چیف کو ملک سے نکال دیا، کینیڈا کے سفر کے لیے ٹریول ایڈوائزی جاری کی اور کینیڈین شہریوں کو ویزے جاری کرنا بند کیا۔
سکھ انڈیا کی آبادی کا صرف دو فیصد ہیں لیکن وہ پنجاب میں اکثریت میں ہیں۔ انڈین پنجاب سے باہر سکھوں کی سب سے بڑی آبادی کینیڈا میں ہے۔
1980 اور 1990 کی دہائی میں سکھوں کی جانب سے الگ سکھ ریاست خالصتان کی مسلح تحریک کو انڈیا نے کچل دیا تھا لیکن آزادی کی اس تحریک کی راکھ میں سے چنگاریاں اب بھی وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں۔
پنجاب کے بھرسنگپورہ گاؤں میں ہردیب سنگھ نجر کی یادیں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن ان کے چچا ہمت سنگھ نجر کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کے خیال میں جسٹن ٹروڈو کی جانب سے نریندر مودی کی حکومت پر نجر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگانا ’بہادرانہ اقدام‘ ہے۔

ہمت سنگھ نجر کا کہنا ہے کہ اب ہر خاندان اپنے بچوں کو کینیڈا بھیجنا چاہتا ہے کیونکہ زراعت زیادہ منافع بخش پیشہ نہیں رہا۔ (فوٹو: روئٹرز)

ہردیب سنگھ نجر کے چچا جو اپنے فارم ہاؤس میں ٹریک کے ساتھ رکھے ایک لکڑی کے بینچ پر بیٹھے تھے، روئٹڑز کو بتایا کہ ’ایک شخص کے لیے ان کو اتنا بڑا خطرہ نہیں مول لینا چاہیے تھا۔‘
تاہم ہمت سنگھ نجر کا کہنا تھا کہ وہ انڈیا اور کینیڈا کے درمیان خراب ہوتے سفارتی تعلقات اور پنجاب میں کم ہوتے معاشی مواقع کی وجہ سے پریشان ہیں۔
پنجاب کبھی انڈیا کا فوڈ باسکٹ ہوا کرتا تھا لیکن اب گذشتہ دو دہائیوں سے انڈیا کی ان ریاستوں نے پنجاب کی جگہ لے لی ہے جو مینوفکچرنگ، خدمات اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں آگے ہیں۔
ہمت سنگھ نجر کا کہنا ہے کہ اب ہر خاندان اپنے بچوں کو کینیڈا بھیجنا چاہتا ہے کیونکہ زراعت زیادہ منافع بخش پیشہ نہیں رہا۔
کینیڈا میں غیرملکی طالب علموں میں سب سے زیادہ کا تعلق انڈیا سے ہے اور گذشتہ برس کینیڈا میں انڈین طالب عملوں کی تعداد 47 فیصد یعنی تین لاکھ 20 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
انڈرگریجویٹ طالب علم گرسیمرام سنگھ جو کینیڈا جانا چاہتے ہیں، نے کہا کہ ’ہمیں اب خدشہ ہے کہ کینیڈا اب سٹوڈنٹ ویزا نہیں دے گا یا انڈین حکومت اس میں رکاوٹیں پیدا کرے گی۔‘

کنور پال کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی خالصتان کی حق خودارادیت کی جنگ لڑتا ہے تو انڈیا ان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

گرسیمرام سنگھ سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل میں روئٹرز سے گفتگو کر رہے تھے جہاں طالب علم سٹوڈنس ویزا کے حصول کے لیے دعا کرنے یا ویزا ملنے کے بعد شکرانے کے طور پر حاضری دینے اور عبادت کرنے آتے ہیں۔
سنہ 1984 میں جب اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سکھ علیدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے آپریشن کا حکم دیا تو یہ سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان تنازع کا فلیش پوائنٹ بن گیا تھا۔ اس آپریشن کے بعد اندرا گاندھی کے سکھ باڈی گارڈز نے ان کو قتل کر دیا تھا۔
پنجاب کے سکھوں اور نریندر مودی کی حکومت کے درمیان تعلقات اس وقت سے کشیدہ چلے آرہے ہیں جب سکھ کسانوں نے نئے زرعی قوانین کے خلاف سال بھر تحریک چلائی اور دارالحکومت نئی دہلی کا گھیراؤ کیا جس کے بعد مودی حکومت نئے قوانین کو واپس لینے پر مجبور ہوئی۔
نجر کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے 31 سالہ سندیب سنگھ کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے ایک خوف کی فضا قائم کی ہوئی ہے خصوصاً نوجوانوں کے لیے۔
’اگر ہم کوئی احتجاج کر رہے ہوتے ہیں تو والدیں اپنے بچوں کو احتجاج میں شامل نہیں کراتے کیونکہ ان کو خوف ہے کہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو نجر کے ساتھ ہوا۔‘

 ہمت سنگھ نجر کا کہنا تھا کہ وہ انڈیا اور کینیڈا کے درمیان خراب ہوتے سفارتی تعلقات اور پنجاب میں کم ہوتے معاشی مواقع کی وجہ سے پریشان ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

سخت گیر نظریات رکھنے والے علیحدہ پسند گروپ دال خالصہ کے سیاسی امور کے سیکریٹری کنور پال کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی خالصتان کی حق خود ارادیت کی جنگ لڑتا ہے تو انڈیا ان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور ان کو ٹارگٹ کرتا ہے۔‘
بی جی پی کے ترجمان نے ان الزامات کو تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
سینیئر بی جے پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں آزادی کے لیے کوئی پبلک سپورٹ نہیں اور اس طرح کے مطالبات انڈیا کے لیے خطرہ ہیں۔ اسی سانس میں بی جے پی رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ جتنا نریندر مودی نے سکھوں کے لیے کام کیا ہے اتنا کسی نے نہیں کیا ہے۔

شیئر: