اس اقتباس کے بعد ہم آپ کو پران (1920-2013) کےلاہور سے تعلق کا قصہ سناتے ہیں۔
لاہور کے بازارِ حسن میں پان کھانے کے لیے جانا پران کے اداکار بننے کی بنیاد بنا۔ فلم میں کام کرنا، ان کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔ دماغ میں صرف اور صرف فوٹو گرافی کا سودا سمایا تھا۔ اس شوق کی خاطر اٹھارہ برس کی عمر میں گھر بار چھوڑ کر وہ لاہور چلے آئے۔ دلی میں وہ ’اے داس اینڈ کمپنی، فوٹو گرافرز‘ سے وابستہ تھے جس نے شملہ کے بعد لاہور میں برانچ کھولی تو پران کو یہاں بھیج دیا لیکن پھر انہیں وہ پیشہ اختیار کرنا پڑا جس میں تصویریں اتارنے کے بجائے اترنے کا سامان پیدا ہونا تھا ۔
قسمت کس طرح پران کو گھیر گھار کر فلم انڈسٹری میں لے گئی۔ اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ وہ غمِ روزگار سے فراغت کے بعد دوستوں کی ہمرہی میں سیرسپاٹے کے لیے بازارِ حسن کا رخ کرتے جہاں مہ وشوں کا رخِ روشن بھی ضرور دیکھتے ہوں گے لیکن وہاں جانے کی ایک وجہ رام لوبھیا کی دکان سے پان کھانا بھی تھا۔
1939 میں جاڑوں کی ایک رات وہ حسب معمول پان کھانے ہیرا منڈی گئے تو دیکھا کہ ایک شخص بڑے غور سے انہیں سر تا پا دیکھ رہا ہے۔ پہلے پہل تو پران نے اسے نظرانداز کیا لیکن پھر ان صاحب نے بڑھ کر نام پوچھ لیا تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیا۔ ان سے مخاطب شخص فلمی دنیا کی معروف شخصیت ولی محمد ولی تھے، جو ولی صاحب کے نام سے معروف تھے۔ انہوں نے پران سے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ فلم رائٹر ہیں اور مشہور پروڈیوسر دل سکھ پنچولی کے لیے فلم لکھ رہے ہیں۔ پران نے ان کی معروضات سن تو لیں لیکن رکھائی سے کہا: تو پھر؟ ولی صاحب نے اس ترش روئی پر بھی پران کا پیچھا نہ چھوڑا کہ انہیں پران کے پان چبانے کی ’لُک‘ میں اپنے سکرپٹ میں موجود کردار کی جھلک نظر آ گئی تھی۔ اب ان کا سوال تھا ’کیا آپ فلم میں کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟‘ اس سوال کا پران نے نفی میں جواب دیا۔
بہرکیف ولی صاحب کو اس بڑی سی ناں نے بھی مایوس نہ کیا اور انہوں نے اپنا کارڈ نوجوان کو دے کر اگلے روز صبح 10 بجے فلم سٹوڈیو آنے کی دعوت دی جسے پران نے ان سے جان چھڑانے کے لیے قبول کر لیا۔ پران کو فلم سٹوڈیو جانا تھا نہ وہ گئے۔ چند دن بعد پلازہ سینما میں فلم دیکھنے گئے تو ادھر ولی صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے پران کو وعدے کے مطابق فلم سٹوڈیو نہ آنے پر کھری کھری سنائیں۔ اس گو شمالی کا پران پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ انہوں نے سٹوڈیو آنے کا وعدہ کیا اور پھر اسے وفا کرنے چلے گئے۔ سکرین ٹیسٹ کے ساتھ ان کی تصاویر بھی بنائی گئیں۔
پران کا کہنا ہے جیسا خوبصورت وہ ان تصویروں میں دکھائی دیے، آنے والے برسوں میں ہرچند کہ ان کی ہزاروں تصاویر بنیں لیکن ویسی خوبصورتی پھر دکھائی نہیں دی۔ پران کے الفاظ میں ’ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ میرا میک اپ بہت اچھے طریقے سے کیا گیا تھا یا پھر فوٹوگرافر کوئی ماہر تھا یا پھر میں کوئی بہت خوبصورت آدمی تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ میں اس وقت اداکار نہیں بنا تھا اور حقیقی زندگی گزار رہا تھا، ایک عام زندگی جو دوسرے لاکھوں لوگوں جیسی تھی۔‘
قصۂ مختصر یہ کہ پران کا پنجابی فلم ’یملا جٹ‘ کے لیے انتخاب ہو گیا۔ ناظم پانی پتی نے انہیں پنجابی بول چال میں رواں کیا۔ پران ذہنی اعتبار سے فلم میں کام کے لیے تیار تھے لیکن فوٹوگرافر سے فلمی اداکار بننے کے فیصلے سے والد کو آگاہ کرنے کا مرحلہ ابھی طے ہونا تھا۔ اس زمانے میں فلم والا ہونا ذریعہ عزت نہ تھا۔ پران کا متذبذب ہونا، سیٹھ دل سکھ پنچولی کو ناگوار گزرا تو اس نے صاف لفظوں میں انہیں باور کرا دیا کہ وہ خوش قسمت ہے جو اسے یہ چانس مل رہا ہے وگرنہ فلم میں کام کے خواہش مندوں کی لائنیں لگی ہیں۔ پران پر واضح کر دیا گیا کہ اسے فلم سٹوڈیو کا فارم فوراً بھرنا ہو گا۔
پران کے لیے مسئلہ یہ بھی تھا کہ فوٹو گرافرز کمپنی سے 200 ماہانہ ملتے تھے جبکہ ادھر ماہانہ 50 روپے کی پیشکش کی جا رہی تھی۔ پنچولی نے انہیں کہا کہ وہ بدستور دکان پر جاتے رہیں، جب شوٹنگ ہو گی، یا ان کی ضرورت پڑے گی تو انہیں بلا لیا جائے گا۔ یوں پران نے فارم پر دستخط کر دیے اور وہ پنچولی آرٹ پکچرز اسٹوڈیوز میں ملازم ہو گئے۔
پنچولی سٹوڈیو کے پلیٹ فارم سے پنجابی فلم ’چودھری‘ میں بھی کام کیا۔ اس کے بعد فلم ’خزانچی‘ میں بھی وہ نظر آئے ۔ لیکن صحیح معنوں میں پران کو جس فلم سے بریک ملا وہ 1942 میں بننے والی فلم ’خاندان‘ تھی۔ پران کو اس فلم نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
لاہور میں قیام کے دوران پران کی فلمی صحافی وی این نیر سے دوستی ہوئی۔ نیر نے 1940 میں لاہور سے انگریزی ماہنامہ ’فلم کرٹک‘ جاری کیا۔ ان کی سفارش پر پران کو پنجابی فلم ’پردیسی بلم‘ میں چانس ملا۔ یہ فلم بھی کامیاب رہی۔
اس فلم کی پران کی زندگی میں اہمیت یہ تھی کہ اس سے حاصل ہونے والے معاوضے سے انہوں نے گاڑی خریدی۔
سنہ 1945 میں پران کی شادی شکلا سے ہوئی۔ ان کے فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے معاملہ کچھ دیر لٹکا ضرور لیکن دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، اس لیے کام بن گیا۔ پران کے خیال میں یہ شادی محبت اور ارینج کا امتزاج تھی۔ شادی سے پہلے شکلا خاندان کے ساتھ راولپنڈی سے ’یملا جٹ‘ دیکھنے لاہور بھی آئی تھیں۔
لاہور میں آٹھ سالہ فلمی کیرئیر میں پران نے 22 فلموں میں کام کیا۔ ’بت تراش‘ فسادات کے زمانے میں ریلیز ہوئی۔ ’شاہی لٹیرا‘ تقسیم کے بعد بھی لاہور میں فلم بینوں کی توجہ کا مرکز رہی۔
پران کو لاہور شہر نے اپنے سحر میں گرفتار کر لیا تھا۔ یہاں انہوں نے بڑے مزے سے زندگی گزاری۔ گلے میں کیمرہ ڈالے وہ سائیکل پر گھومتے پھرتے۔ دل سکھ پنچولی انہیں فلم میں چانس دینے سے پہلے مال روڈ پر بے پروائی سے سائیکل چلاتے دیکھ چکے تھے۔ موٹرسائیکل پر شہرنوردی بھی کی۔ ایک بار ایکسیڈنٹ کرا بیٹھے جس پر انہیں مجسٹریٹ کے حضور پیش ہو کر صفائی دینا پڑی۔ ان کا اپنا ذاتی ٹانگہ تھا جس کا ذکر سعادت حسن منٹو نے بھی کیا ہے۔
جب پران رام پوری چاقو ساتھ رکھنے لگے
11 اگست 1946 کو پران کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ اس زمانے میں سیاست کی گرما گرمی سے ماحول میں تناؤ تھا اور جوں جوں آزادی کا وقت قریب آ رہا تھا، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ خراب حالات کی وجہ سے پران اپنے پاس رام پوری چاقو رکھنے لگے تھے۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر بیوی اور نوزائیدہ بچے کو انہوں نے اندور بھجوا دیا۔
کشیدگی عروج پر پہنچی تو انہیں بھی تقسیم سے چند دن پہلے لاہور چھوڑنا پڑا۔ معروف براڈ کاسٹر اور لکھاری عارف وقار کے بقول ’اداکار پران جو لاہور کو دل وجاں سے چاہتے تھے، آخری وقت تک حالات بہتر ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی بیوی اور ایک سالہ بچے کو اندور بھیج دیا تھا لیکن خود لاہور چھوڑنے کو ان کا دل نہ چاہتا تھا۔‘
’گیارہ اگست 1947 کو خیرخواہوں کے اصرار پر انہوں نے ڈبڈبائی آنکھوں اور بھاری قدموں سے لاہور کو خیرباد کہا اور اگلے ہی روز ان کے محلے پر فرقہ پرستوں نے حملہ کر دیا۔ بہت سے ہندو مارے گئے، جو بچ رہے انہوں نے فوراً رختِ سفر باندھا اور محفوظ علاقوں کی راہ لی۔‘
شہر تو لاہور ہے
تقسیم کے بعد پران کا محبوب شہر میں آنا تو نہ ہوا لیکن اس کی یاد ان کے سینے میں سلگتی رہی۔ وہ اس شہر کا ذکر وارفتگی سے کرتے اور اسے یاد کر کے آہیں بھرتے۔
ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ نے اپنی کتاب ’لاہور آوارگی‘ میں پران کے ایک ٹی وی انٹرویو کا حوالہ دیا ہے جس میں ان سے پوچھے گئے اکثر سوالوں کی تان لاہور پر ٹوٹتی رہی۔ میزبان نے کہا کہ آپ کی زندگی کا بیش تر حصہ تو بمبئی میں گزرا، اس کی آپ بات نہیں کرتے ہر پھر کر لاہور پر آ جاتے ہیں۔
تارڑ صاحب نے پران کے خیالات کو ان الفاظ میں بیان کیا:’پران نے اپنی سحر انگیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا، یہ درست ہے کہ بمبئی نے مجھے بے مثال شہرت سے ہمکنار کیا لیکن یہ شہر تو نہیں تجارتی مفادات اور ثقافتی ملغوبوں کی ایک بستی ہے۔ شہر تو لاہور ہے۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ میرے زمانوں کا لاہور کیا تھا، وہاں کیسے کیسے مصور، اداکار، شاعر، ادیب اور پہلوان ہوا کرتے تھے۔‘
’میں ایک مثال دیتا ہوں۔ ان دنوں لڑکیاں دو چوٹیاں کیا کرتی تھیں اور ان میں ربن باندھتی تھیں۔ اگر کسی سویر ایک لاہوری لڑکی غلطی سے ایک ہی رنگ کے بجائے دو مختلف رنگوں کے ربن باندھ لیتی تھی، ایک سرخ اور دوسرا زرد رنگ کا تو راس کماری سے لے کر کشمیر تک سب ہندوستانی لڑکیاں اپنے بالوں میں سرخ اور زرد رنگ کے ربن سجا لیتی تھیں کہ لاہور والیوں نے یہ فیشن کیا ہے۔ پورا ہندوستان لاہور میں جنم لینے والے فیشن کی پیروی کرتا تھا تو لاہور ایسا تھا۔‘
نور جہاں اور پران
پران کی پہلی فلم ’یملا جٹ‘ میں نور جہاں نے بھی کام کیا۔ وہ اس زمانے میں چائلڈ سٹار تھیں اور بے بی نور جہاں کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ ’یملا جٹ‘ میں پران ولن بنے۔ نور جہاں نے ہیروین کی سہیلی کا کردار کیا۔ فلم ’خاندان‘ میں وہ پران کی ہیروین بنیں۔ 1942ء میں لاہور کے ریگل سینما میں پران اور نور جہاں کی ریلیز ہونے والی ’خاندان‘ کھڑکی توڑ ثابت ہوئی۔ فلم کی کہانی امتیاز علی تاج نے لکھی۔ گانے ڈی این مدھوک اور شوکت تھانوی کے قلم سے تھے۔ موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی۔ فلم کے گانے بہت مقبول ہوئے۔
’خاندان‘ کے زمانے میں نور جہاں اور پران کا سکینڈل بھی بنا جس کے بارے میں ملکہ ترنم نے ایک انٹرویو میں بتایا:
’اخبارات میں بے بنیاد قسم کی خبریں شائع ہونی شروع ہو گئیں کہ میں پران کے ساتھ شادی کر رہی ہوں۔ بعض اخباروں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ نور جہاں اور پران نے خفیہ شادی کر لی ہے۔‘
پران نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ لاہور میں تھے تو نور جہاں نے ان کے ساتھ ہیروین کا کردار نبھایا تھا، اور وہ اس زمانے میں مشہور ہیروین اور مغنیہ تھی۔ اس حد تک تو پران کا کہنا ٹھیک تھا مگر اس انٹرویو میں چلتے چلتے انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اب تو وہ خاصی بوڑھی ہو گئی ہوں گی۔
انٹرویو چلا۔ بات نور جہاں تک پہنچی۔ انہیں اپنے بارے میں کمنٹ اچھا نہ لگا، جس کا ردعمل پران کو ان کی ناراضی بھری فون کال کی صورت میں ملا۔
اس فون کے بارے میں پران بتاتے ہیں: نور جہاں کال ملتے ہی سیدھا اصل بات پر آ گئیں۔ چھوٹتے ہی بولیں ’میں نور جہاں بول رہی ہوں۔ اچھا تو میں بوڑھی ہو گئی ہوں۔ تم اپنی سناؤ؟ تم بھی اب کون سے جوان نظر آتے ہو۔‘ خیر، یہ بات آئی گئی ہو گئی۔ 1982 میں نور جہاں انڈین ٹاکی کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے ہندوستان گئیں تو پران سے 35 برس بعد ملاقات ہوئی۔ اتفاق سے یہ تقریب 12 فروری کو پران کی سالگرہ کے دن ہونا تھی۔ نور جہاں نے یہاں اپنا مشہور گانا ’آواز دے کہاں ہے‘ گایا۔
ہندوستان روانہ ہونے سے قبل نور جہاں کی کیفیت کے بارے میں پران بتاتے ہیں :
’نور جہاں اس دورے کے بارے میں اس قدر نروس تھی کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل کوئی آٹھ دس بار مجھے صرف اس بات کا اطمینان کرنے کے لیے فون کیا کہ میں ایئرپورٹ پر سپیشل بس کے ساتھ اس کے انتظار کے لیے موجود رہوں گا۔‘
نورجہاں ہندوستان پہنچیں تو پران نے ان کے اعزاز میں پارٹی دی، جس میں فلم انڈسٹری کے پرانے دوستوں اور ساتھیوں سے مل کر وہ بہت خوش ہوئیں۔
فلمی سکینڈلز سے باخبر
سنہ 1942 میں رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) فلم ’سہارا‘ میں کام کے لیے لاہور آئی تھیں۔ اس عرصے میں ان کی پران سے ملاقات رہی۔ وہ ان کے دیور کے دوست تھے، اس لیے انہیں خورشید بھابی کہہ کر مخاطب کرتے۔ رینوکا دیوی کے مطابق ’میری اور اس کی گاڑھی چھنتی تھی اور وہ مجھے سٹوڈیو میں ہونے والے سارے سکینڈلز کے بارے میں بتاتا تھا جیسے کہ ایک فلم کی ہیروین اسی فلم کے ڈائریکٹر کے ساتھ بھاگ گئی وغیرہ وغیرہ۔ ‘
منٹو اور پران
سعادت حسن منٹو اپنی کتاب ’لاؤڈ سپیکر‘ میں لکھتے ہیں: ’پران سے جب میری ملاقات شیام کے توسط سے ہوئی تو میری اس کی فوراً دوستی ہو گئی۔ بڑا بے ریا آدمی ہے۔۔۔ پران اچھا خاصا خوش شکل مرد ہے۔ لاہور میں اس کی شہرت اس وجہ سے تھی کہ وہ بڑا ہی خوش پوش تھا۔ بہت ٹھاٹ سے رہتا تھا۔ اس کا ٹانگہ گھوڑا لاہور کے رئیسی ٹانگوں میں سے زیادہ خوبصورت اور دلکش تھا۔‘
منٹو نے پران سے فلاش کھیلنے کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ کس طرح سے دو نمبری کر کے انہیں مسلسل ہراتا رہا۔
تقسیم کے بعد جب پران لاہور سے بمبئی پہنچے تو منٹو اس وقت ادھر ہی تھے۔ منٹو نے انہیں نئی جگہ چانس دلانے کی کوشش کی۔ پران کے بقول ’میرے عزیز دوست اور عظیم اردو رائٹر سعادت حسن منٹو جو ملک کی نمایاں فلم کمپنیوں میں سے ایک بمبئے ٹاکیز سے وابستہ تھے، وہ مجھے کام دلانے کے لیے اپنے ساتھ ملاڈ لے گئے، تاہم اس وقت کچھ بھی نہ بن پڑا۔‘
پران صاحب کی آنکھوں میں آنسو
معروف صحافی اور شوبز رپورٹر طاہر سرور میر کی سنہ 2001 میں بمبئی میں پرویز مہدی کے ہم راہ پران سے ملاقات ہوئی تو وہ رہ رہ کر لاہور کو یاد کرتے رہے۔ جی کھول کر ان سے باتیں کیں۔ بتایا کہ رائل پارک اور گوالمنڈی میں ان کی سکونت رہی۔ پران کے انتقال پر طاہر سرور میر نے ان سے جڑی یادیں دو سلسلہ وار کالموں میں تازہ کیں۔ جن کا عنوان تھا’ لاہوریے کی یاد میں‘
ان کو پران ایسے لاہوریے لگے جن کا دل لاہور کی یادوں سے معمور تھا اور انہیں لاہوریا ہونے پر فخر تھا۔ طاہر سرور میر نے لکھا کہ وہ لاہور کا نام لیتے تو لگتا جیسے ان کا منہ شہد سے بھر گیا ہو۔ پران نے انہیں لاہور سے محبت کی داستان کچھ یوں سنائی:
’مجھے تو لاہور کوہ قاف اور پریوں کے دیس جیسا لگتا تھا۔ گوالمنڈی، لکشمی چوک، رائل پارک، ہیرامنڈی، چونا منڈی، موہنی روڈ، شوری سٹوڈیو، پنچولی آرٹ سٹوڈیو، حضوری باغ اور لارنس گارڈن یہ ہمارا لاہور تھا۔ ہم سب جگہ اپنے تانگے پر جایا کرتے تھے۔ میرا تانگہ بان تاج دین اور گھوڑا شیرو تھا۔‘
تاج دین اور شیرو کا ذکر کرتے ہوئے پران صاحب کی آنکھوں میں آنسوؤں کے موتی چمکنے لگے تھے۔ پران صاحب نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ ’صاحب! زندگی میں اگر بہت کچھ پایا ہے تو بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ ممبئی نے ہمیں پران کرشن سکند سے سپرسٹار پران بنایا، اپنے آپ کو میں تو کچھ بھی نہیں سمجھتا، یہ تو آپ لوگوں کا پیار ہے، لیکن اس کے لیے بھی ہمیں لاہور قربان کرنا پڑا۔‘
پران صاحب ہم دونوں سے مخاطب ہوئے ’آپ خوش نصیب ہیں جو لاہور میں آباد ہیں۔‘