Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکٹیبلز کی شمولیت، کیا نواز شریف کا دورہ کوئٹہ کامیاب رہا؟

ن لیگ میں شامل ہونے والے الیک اٹیبلز میں سے زیادہ تر 2013 اور 2018 کے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ فوٹو: ن لیگ فیس بک
مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد اپنی سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز بلوچستان سے کیا ہے اور یہاں تیس کے قریب الیکٹیبلز کو اپنی جماعت کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف کا دورہ بلوچستان کامیاب رہا اور بڑی تعداد میں الیکٹیبلز کی شمولیت کے بعد صوبے میں ن لیگ کی حکومت بننے کے قوی امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
تاہم تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہنے والے، صرف اقتدار کی سیاست اور مشکل وقت میں ساتھ چھوڑنے والوں کو دوبارہ اپنی صفوں میں شامل کرنے سے مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ کو عوامی سطح پر نقصان بھی پہنچا ہے۔
پیر اور منگل کو میاں نواز شریف نے ن لیگ کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف، چیف آرگنائزر مریم نواز اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے ہمراہ کوئٹہ کا دورہ کیا۔ ان کے دورے کے دوران 30 الیکٹیبلز اور اہم سیاسی شخصیات نے ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا۔
ن لیگ کا حصہ بننے والوں میں ایک سابق وزیراعلیٰ، تین سابق ارکان قومی اسمبلی اور12 سابق ارکان بلوچستان اسمبلی شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تر سیاستدان 2013 یا 2018 کے الیکشن میں اپنے حلقوں سے کامیاب رہے ہیں۔
ن لیگ میں شامل ہونے والوں میں زیادہ تعداد بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں کی ہے۔ ان میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے سابق سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ جام کمال، ان کے داماد اور سابق ایم این اے عامر مگسی کے  بیٹے نوابزادہ زرین مگسی، نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان کے بھائی سابق رکن قومی اسمبلی دوستین ڈومکی بھی شامل ہیں۔
 بی اے پی کے سابق صوبائی وزراء میں سے بارکھان سے تعلق رکھنے والے سردار عبدالرحمان کھیتران، نصیرآباد سے محمد خان لہڑی، عبدالغفور لہڑی، دکی سے سردار مسعود لونی، زیارت سے نور محمد دمڑ،خاران سے  شعیب نوشیروانی، کچھی سے عاصم کرد گیلو، چاگی سے مجیب الرحمان محمد حسنی اور خواتین کی مخصوص نشست پر رکن صوبائی اسمبلی رہنے والی ربابہ بلیدی بھی ن لیگ میں شامل ہوئیں۔

بلوچستان سے 30 الیکٹ ایبلز نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر ن لیگ

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے جعفرآباد سے سابق ایم این اے خان محمد جمالی اور سردار عاطف سنجرانی شامل ہوئے۔ اسی طرح صرف چند ماہ قبل  پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے چاغی سے سابق رکن قومی اسمبلی سردار فتح محمد حسنی، صحبت پور سے میر سلیم خان کھوسہ، جعفرآباد سے فائق خان جمالی بھی نواز لیگ کا حصہ بن گئے ہیں۔ 
کئی ایسے سابق پارلیمنٹرین بھی ن لیگ کا حصہ بنے ہیں جنہیں اپنی جماعتوں نے نکال دیا گیا تھا۔ ان میں نیشنل پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی سابق رکن صوبائی اسمبلی زینت شاہوانی شامل ہیں۔
ن لیگ میں شامل ہونے والوں میں سابق سینیٹر سعید الحسن مندوخیل کے علاوہ کئی ایسے رہنماء بھی شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تاہم کامیاب نہیں ہوئے۔
کیا نواز شریف کا دورہ بلوچستان کامیاب رہا؟
بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کی رائے میں نواز شریف اپنے دورے میں کامیاب رہے اور الیکٹیبلز کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملایا، اب یہ امکانات قوی ہوگئے ہیں کہ بلوچستان میں اگلی حکومت ن لیگ کی بنے گی۔
ان کے بقول اس کے اثرات صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ باقی صوبوں پر بھی پڑیں گے اور وہاں کے الیکٹیبلز کو بھی یہ تاثر چلا گیا ہے کہ ہواؤں کا رخ ن لیگ کی طرف ہے اور مرکز میں بھی ن لیگ کی حکومت آنے والی ہے۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق نواز شریف نے بلوچستان سے اچھا آغاز کیا ہے، پیپلز پارٹی نے بھی ن لیگ کی بلوچستان میں قدم جمانے کی کوششوں کے بعد بلوچستان میں 30 نومبر کو یوم تاسیس پر جلسے کا اعلان کیا ہے۔
’شاید بچے کچھے الیکٹیبلز ان کی طرف چلے جائیں مگر مجموعی طور پر پیپلز پارٹی خسارے میں ہے۔‘
ان کے بقول اصل سیاسی لڑائی پنجاب میں ہونی ہے وہاں ن لیگ اور پی ٹی آئی میں مقابلہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی بدقسمتی ہے کہ وہاں انہیں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں۔ پنجاب میں کامیاب ہونے والی جماعت ہی مرکز میں حکومت بنائے گی اس لیے الیکٹیبلز اس جماعت کو ہی اہمیت دیں گے جو مرکز میں حکومت بنا سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں ن لیگ کے بلوچستان میں حکومت بنانے کے قوی امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ فوٹو: ٹوئٹر ن لیگ

تجزیہ کار عدنان عامر بھی یہی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اپنے مقصد میں کامیاب رہے اور انہوں نے اپنی اتحادی جماعتوں نیشنل پارٹی، پشتونخوا میپ اور جے یو آئی کے رہنماؤں سے بھی ملے اور یہ پیغام دیا کہ وہ اتحاد برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول نواز لیگ کو بلوچستا ن میں حکومت یا صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے زیادہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنی تعداد بڑھانے میں دلچسپی ہے کیونکہ انہیں مرکز میں حکومت سازی اور پھر قانون سازی کے لیے ان دو ایوانوں میں اکثریت کی ضرورت ہے۔
عدنان عامر کے مطابق ن لیگ کی کوشش ہوگی کہ وہ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 16 عمومی نشستوں میں کم از کم پانچ چھ حاصل کریں۔ اسی طرح بلوچستان سے 20 کے قریب صوبائی نشستیں ملنے کی صورت میں 2024 اور 2027 کے سینیٹ انتخابات میں ن لیگ مجموعی طور پر بلوچستان سے 10 کے قریب سینیٹر منتخب کرا سکتی ہیں، ایسی صورت میں یہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ نوازشریف اپنے اس دورے سے صرف پنجاب کے رہنما ہونے کا تاثر بھی دور کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچستان کے بعد اب وہ سندھ اور خیبر پختونخوا پر بھی توجہ دیں گے تاہم اس کا درست تعین اس وقت ہی ہوگا جب وہ اقتدار میں آکر فیصلے لیں گے۔
کیا مسلم لیگ ن کے برسر اقتدار آنے سے بلوچستان میں بہتری آئے گی؟
تجزیہ کاراس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ بلوچستان میں ن لیگ یا پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے صوبے میں طرز حکمرانی میں بہتری کے زیادہ امکانات نہیں۔
کوئٹہ میں ایک نجی ٹی وی کے بیورو چیف اور تجزیہ کار عرفان سعید کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جماعتیں بدل بدل کر یہی لوگ کئی دہائیوں سے حکومت کرتے آرہے ہیں جو اب ن لیگ کا حصہ بن کر اگلی حکومت میں پھر اس کا اہم جزو ہوں گے۔
’یہ وہ لوگ ہیں جو بلوچستان میں کئی بار حکومتیں کرنے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں لاسکے بلکہ صوبے کو ترقی کی بجائے مزید پستی میں دھکیل دیا ہے۔ نواز شریف کی بلوچستان میں بیٹھ کر صوبے کی تقدیر بدلنے کی تقریر صرف باتیں ہیں، ان پرانے چہروں کے ساتھ بلوچستان کی تقدیر بدلنے والی نہیں۔‘
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ حکومت اور اپوزیشن نے مل کر گورننس کو تباہ کیا، ان پر کرپشن اور نوکریوں کی فروخت سمیت ہر الزام لگا۔
عدنان عامر کہتے ہیں کہ بلوچستان کے مسائل ایک بڑا موضوع ہے جس کا تعلق مرکز اور اور صوبے کے تعلقات سے ہیں۔
ان کے خیال میں ن لیگ کے مرکز اور صوبے میں حکومت میں آنے سے بلوچستان کا نقصان ہوگا۔
ان کے مطابق جام کمال یا جو بھی ن لیگ کی طرف سے وزیراعلیٰ بنے گا وہ بلوچستان کے قدرتی وسائل، گوادر، ریکوڈک، بجلی، گیس سمیت دیگر مسائل پر وفاق میں اپنا کیس بہتر انداز میں پیش نہیں کر سکے گا کیونکہ وہ اپنی ہی جماعت کے وزیراعظم سے اختلاف، تنقید یا جرات مندی سے بات کرنے سے گریز ہی کریں گے۔
عدنان عامر کے مطابق اس کی مثال ماضی میں نواب ثناء اللہ زہری کی صورت میں ڈیرہ بگٹی میں پی پی ایل معاہدے کی ہے۔

دورہ بلوچستان کے دوران شہباز شریف نے سابق وزیراعلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی سے بھی ملاقات کی۔ فوٹو: ٹوئٹر ن لیگ

بلوچستان اور ن لیگ دونوں کی بد نامی 
تجزیہ کار عرفان سعید کہتے ہیں ’نواز شریف کبھی دعوے کرتے تھے کہ جنہوں نے پارٹی اور نظریات کو نقصان پہنچایا انہیں کبھی نہیں لیں گے۔ اسی طرح ن لیگ باپ پارٹی پر بہت زیادہ تنقید کرتی تھی جو لوگ نواز شریف کو غدار کہتے تھے لیکن آج ن لیگ نے ان سب کو اپنی صفوں میں شامل کر لیا ہےجس سے ان کی جماعت کی ساکھ اور بیانیے کو نقصان پہنچا ہے۔‘
عرفان سعید کے مطابق یہ سیاست کا المیہ ہے اور اس سے ن لیگ اور بلوچستان دونوں کی بدنامی ہوئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی اے پی سمیت مختلف جماعتوں سے ن لیگ میں جانے والے یہ افراد مشکل وقت میں ایک بار پھر ن لیگ کا ساتھ چھوڑنے میں دیر نہیں کریں گے۔ ان کے بقول اس کا انحصار ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات پر ہوگا۔ 
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر تبصرہ کیا ہے کہ ’میاں نواز شریف سے جب بھی ملوں گا ان سے یہ لازمی کہوں گا جن پرندوں کو آپ نے کل پنجرے میں قید کیا یہ وہ پرندے ہیں جو جس آشیانے میں جاتے ہیں اسے اجاڑ کر واپس آتے ہیں۔ یہ ایسے پرندے نہیں کہ جن سے خیر کی توقع کی جاسکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے یہ لوگ محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، پرویز مشرف، بے نظیر بھٹو اور آپ کے ساتھ تھے اب واپس آپ کے پاس آرہے ہیں۔ یہ ایور گرین سیاستدان پاکستان بننے سے لے کر اب تک ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔

شیئر: