Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نااہلی کیس:’کیسے ممکن ہے کبھی انتخابات نہ لڑسکیں؟‘ 

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملے کا نوٹس میر بادشاہ قیصرانی کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی ایک درخواست کی سماعت کے دوران لیا تھا۔ (فوٹو: اردو نیوز)
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر ایک شخص نے کاغذات نامزدگی میں غلطی کی تو عدالت نے اسے گھر بھیج دیا کیا یہ سزا کافی نہیں؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سزا کے بعد کبھی انتخابات نہ لڑسکے؟ 
منگل کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔  
جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی کا حصہ تھے۔  
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔‘ انہوں نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کے دوبارہ جائزے کی استدعا کردی۔ 
دوران سماعت  میر بادشاہ قیصرانی کےخلاف درخواست گزارکے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کی۔ وکیل نے کہا کہ ’میں نے 2018 میں درخواست دائر کی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا۔ اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل ہوچکا اس لیے تاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔‘ 
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’الیکشن ایکٹ 2017 کو کیا کسی نے عدالت میں چیلنج کیا؟ ‘ جس پر درخواست گزار کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ  الیکشن ایکٹ کو کبھی بھی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’کیا کوئی ایسی صوبائی حکومت ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کی مخالفت کرے؟‘ جس پر صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز نے عدالت میں مؤقف دیا کہ ’تمام صوبائی حکومتیں الیکشن ایکٹ 2017 کو سپورٹ کر رہی ہیں۔‘ 

سیاسی مبصرین اس کیس کو پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے لیے نہایت اہم قرار دے رہے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

چیف جسٹس نے کہا کہ ’نااہلی کی مدت کا تعین آئین میں نہیں، اس خلا کو عدالتوں نے پُر کیا۔‘ جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ’سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن ایکٹ میں دی گئی نااہلی کی مدت آئین سے زیادہ اہم تصور ہو گی؟ آرٹیکل 63 کی تشریح کا معاملہ ہے، سنگین غداری کرے تو الیکشن لڑ سکتا ہے۔ سول کورٹ سے معمولی جرائم میں سزا یافتہ الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کوختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جو لکھا ہے اسے قانون سازی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟‘ 
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی میعاد کا ذکر نہیں ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے نااہلی تاحیات رہے گی۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آرٹیکل 62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک سی ہے۔ آرٹیکل 63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریے کی خلاف ورزی کرنے والے کی نااہلی 5 سال ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اگر ایک شخص کے خلاف مقدمہ ہو تو وہ 2 سال سزا کاٹ کر واپس آسکتا ہے۔ مگرایک شخص کےخلاف مقدمہ نہ ہو بلکہ ڈکلیئریشن آجائے تو وہ دوبارہ آہی نہیں سکتا۔‘ 
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا کوئی شخص حلفیہ طور پر کہہ سکتا ہے کہ وہ اچھے کردارکا مالک ہے؟ اگر 2002ء میں قائد اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے۔‘ 
 جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’جب غیر منتحب لوگ قوانین بنائیں گے تو ایسے ہی ہو گا۔‘ 
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں موجودہ کیس میں جہانگیز خان ترین کا وکیل ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کو عدالتی معاون مقرر کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن آپ پہلے ہی ہمارے سامنے فریق ہیں۔ یہ بتائیں کہ آرٹیکل 62 میں یہ شقیں کب شامل کی گئیں؟‘ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’آرٹیکل 62 آئین پاکستان 1973 میں سادہ تھا۔ آرٹیکل 62 میں اضافی شقیں صدارتی آرڈر 1985 سے شامل ہوئیں۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یعنی ضیا نے  کردار سے متعلق شقیں شامل کرائیں۔ کیا ضیاالحق کا اپنا کردار اچھا تھا؟ ستم ظریفی ہے کہ آئین کے تحفظ کی قسم کھا کر آنے والے خود آئین توڑ دیں اور پھر یہ ترامیم کریں۔‘ 

چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ’آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات مقرر کرنے والے جج نے فیصل واوڈا کیس میں اپنی رائے تبدیل کی۔‘ 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’سوال یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 62 اور 63 پر مہر لگائی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف صوبوں کے مابین تنازعات پر ڈکلیئریٹو فیصلہ دے سکتی ہے۔‘ 
درخواست گزار ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ ’50 سال سے قانون میں اراکین کی اہلیت کا معیار طے ہے۔‘ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پھر اس سے پہلے کوئی 62 ون ایف کے تحت نااہل کیوں نہ ہوا۔‘ 
 جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’جھوٹ بولنے پر سزا تاحیات ہے۔ قتل یا غداری پر سزا محدود ہے اور وہ الیکشن بھی لڑسکتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔‘ 
بعد ازاں کیس کی سماعت 4 جنوری ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ پرسوں کیس پر سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی سینیئر وکیل عدالتی معاونت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ تمام وکلا ویڈیو لنک کے بجائے اسلام آباد میں پیش ہوں۔ 

شیئر: