Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈنکن شارپ، پاکستان کے پہلے اور آخری اینگلو انڈین ٹیسٹ کرکٹر

1959 میں ڈنکن شارپ نے آسٹریلیا کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی (فوٹو: کتاب وائٹ اِن گرین)
سنہ 1960 میں فضل محمود کی کپتانی میں پاکستان ٹیم نے انڈیا کا دورہ کیا۔ سائیڈ میچ میں ساؤتھ زون کی جو ٹیم پاکستان کے خلاف میدان میں اتری، اس میں حیدر آباد دکن کے نوجوان آصف اقبال بھی شامل تھے جنہوں نے بعد میں پاکستان ہجرت کی، قومی ٹیم میں شامل ہوئے اور مردِ بحران کہلائے۔
سنہ 1960 میں انڈیا میں پاکستان کے خلاف کھیلنے والے آصف اقبال کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے 1979 میں انڈیا کا دورہ کیا۔ دن بدلنا اسی کو کہتے ہیں۔ آصف اقبال کے ماموں آف سپنر غلام احمد نے 22 ٹیسٹ میچوں میں انڈیا کی نمائندگی کی۔ کپتان بھی رہے۔ بین الاقوامی کرکٹ میں ماموں بھانجے کا کپتان بننا ہی منفرد بات ہے اور یہاں تو معاملہ اور بھی عجب ہے کہ ماموں نے ایک تو بھانجے نے دوسرے ملک کی قیادت کی۔
آصف اقبال کبھی حریف ٹیم میں تھے اور پھر پاکستان ٹیم کا حصہ بنے۔ 60 کی دہائی میں اس سے الٹ یہ بات ہوئی کہ ایک پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر پرایا ہو گیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ 1964میں حنیف محمد کی کپتانی میں پاکستان ٹیم آسٹریلیا گئی۔ سائیڈ میچ میں جنوبی آسٹریلیا کی طرف سے پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر ڈنکن شارپ اپنی سابقہ ٹیم کے خلاف میچ میں شریک ہوئے۔ پانچ سال پہلے 1959 میں انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ ان کا بین الاقوامی کیرئیر بس انھی میچوں پر محیط رہا۔ آج انہی ڈنکن شارپ کا تذکرہ کرنا مقصود ہے جو گذشتہ چھ دہائیوں سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔
ڈنکن شارپ پاکستان کے پہلے اینگلو انڈین ٹیسٹ کرکٹر تھے اور کہا جا سکتا ہے کہ آخری بھی۔ ایک زمانے میں وہ اپنی کمیونٹی کی آنکھوں کا تارا تھے۔ خوب روئی اور دلکشی کی وجہ سے لڑکیاں ان پر فدا تھیں۔ اس بات کی دستاویزی شہادت حال ہی میں ہم سے جدا ہو نے والے نامور مصور اسلم کمال کی یادداشتوں سے مہیا ہوئی ہے۔
 وہ ساٹھ کی دہائی میں لاہور میں ان کی مقبولیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ  ’اس زمانے میں ریلوے برٹ انسٹیٹوٹ ویک اینڈ پر خاص طور پر شام کی تفریحی سرگرمیوں کا سب سے مقبول مرکز ہوا کرتا تھا۔ ریلوے برٹ انسٹیٹوٹ میں ڈنکن شارپ کی آمد پر اینگلو انڈینز کی مسرتیں اور شادمانیاں دیکھنے والی ہوتی تھیں اور گڑھی شاہو کے کراؤن سینما میں اینگلو انڈین حسیناؤں کی قطاریں ڈنکن شارپ کو ویلکم کرتی تھیں۔‘
’اسے ڈھاکہ میں غالباً ویسٹ انڈیز( ویسٹ انڈیز نہیں آسٹریلیا) کے خلاف ٹیسٹ میں بطور وکٹ کیپر پاکستان نے ٹیسٹ کیپ دی تھی۔ مگر وہ پھر کسی اور بڑے مستقبل کے پیچھے پاکستان سے آسٹریلیا کوچ کر گیا تھا۔ کراؤن سینما میں ریٹا وائٹ ہیڈ جب بھی میرے ساتھ جاتی تو وہ مجھ سے سوال کیا کرتی کہ ڈنکن شارپ کو آسٹریلیا نے ابھی تک ٹیسٹ کیپ کیوں نہیں دی؟‘
ڈنکن شارپ کی محبوبیت کا اندازہ اس اقتباس سے کیا جاسکتا ہے۔ اب تھوڑا ذکر اینگلو انڈین کمیونٹی کا بھی ہو جائے جو کبھی لاہور کی ثقافتی خوبصورتی کا لازمی حصہ تھی۔ شہر کے کھلے ڈلے اور روادارانہ ماحول کی نشانی تھی، لیکن اب اس کا وجود نہ ہونے کے برابر  ہے۔ گڑھی شاہو کا علاقہ اینگلو انڈینز کا گڑھ تھا۔ سابق بیورو کریٹ اور فکشن نگار طارق محمود کی خود نوشت ’دامِ خیال‘ میں اس علاقے میں ان کی سرگرمیوں کی جھلک نظر آتی ہے۔
آپ اس کتاب سے یہ ایک اقتباس پڑھ لیں تو پھر ہم دوبارہ ڈنکن شارپ کی بات کرتے ہیں: ’گڑھی شاہو کے صدر بازار میں ہر وقت گہما گہمی رہتی۔ سڑک پر اکثر کیرج فیکٹری کی طرف سے سائیکلوں پر سوار سانولے سلونے نسوانی وجود دکھائی دیتے۔ یہ خواتین سکرٹ اور بلاوز میں ملبوس ہوتیں۔ گھنے، گھنگھریالے شارٹ کٹ بالوں میں اور بھی بھلی لگتیں۔ یہ اینگلو انڈین خواتین تھیں۔ کیرج فیکٹری کے راستے کے دائیں بائیں آبادیوں میں یہ لوگ رہائش پذیر تھے۔‘
’سائیکل کے کیرئر پر ٹوکریاں رکھے بازار میں آتیں۔ بریک لگاتیں سائیکل سے اترتیں، ٹوکری ہاتھ میں تھامے، سبزی فروشوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو جاتیں۔ رنگ برنگے، پھول دار فراک ان کی پہچان تھے۔ بعض خواتین کے گلے میں کراس جھولتا دکھائی دیتا۔ کبھی کبھار ان میں سے کچھ بغیر بازو کے فراک میں ہوتیں۔ ان کے سلیولیس ٹاپس اور عیاں پنڈلیوں پر کوئی بھی معترض نہ تھا۔ ہر کوئی اپنے آپ میں جی رہا تھا۔ یہ لوگ تو یہاں کے مکینوں سے بھی زیادہ مدت سے آباد تھے۔‘

اب بات کرتے ہیں ڈنکن شارپ کی جن کی حالیہ برسوں میں یاد پاکستان کرکٹ کے بارے میں ایک انگریزی کتاب نے تازہ کی۔ برطانوی مصنفین رچرڈ ہیلر اور پیٹر اوبورن کی کتاب’ وائٹ آن گرین‘ میں ڈنکن شارپ پر پورا باب شامل ہے جس کا عنوان ہے ’ملتان سے ملیبورن تک: ڈنکن شارپ کی دوہری زندگی۔‘
اس  تحریر سے شارپ کی شخصی زندگی اور کرکٹ کیرئیر کے بارے میں معلومات اخذ کر کے ہم آپ کے سامنے رکھتے ہیں جس کے ساتھ کچھ اضافی باتیں بھی ہوں گی۔
 ویلس میتھائس اور انٹاؤ ڈی سوزا کے بعد شارپ پاکستان کی نمائندگی کرنے والے تیسرے مسیحی کرکٹر تھے۔
  ڈنکن شارپ کی صورت معروف اداکار کیری گرانٹ سے ملتی تھی۔ گاہے گاہے انگریزی اخبار ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ میں لکھتے تھے۔ انگریزی ناول نگار میک پیس تھیکرے سے ان کی عزیز داری ہے۔
 ڈنکن شارپ1937 میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ والدین کی عیلحدگی کے بعد کچھ عرصہ والد کے ساتھ رہے۔ سینٹ انتھونی اور پھر کتھڈرل سکول لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ والد کے ساتھ چند سال رہنے کے بعد والدہ کے پاس آگئے۔ وہ نرس تھیں۔ ان کا تبادلہ ملتان ہوا تو ادھر  شارپ کی کرکٹ میں دلچسپی پروان چڑھی۔
یہ 1953 کی بات ہے۔ ملتان کرکٹ کلب سے کھیلنے لگے۔ دو سال میں شوق کو پر لگے تو کرکٹ کی مرکزی جولان گاہ لاہور کا رخ کیا۔ اس زمانے میں کراچی اور لاہور ہی کرکٹ کے مرکز تھے، زیادہ تر کھلاڑی انھی شہروں سے نکلتے۔ والدہ کے لاہور تبادلے نے ان کی راہ آسان کردی۔ کریسنٹ کرکٹ کلب سے کھیلنے لگے۔ ریلوے میں کلرک ہو گئے اور ریلوے کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ عبدالحفیظ کاردار اور فضل محمود ان کے کھیل سے متاثر ہوئے۔ خود شارپ کو ڈینس کامپٹن اور امتیاز احمد کی بلے بازی پسند تھی۔ 1956 میں ایم سی سی (اے ٹیم) کے خلاف بلوچستان ریلویز کی طرف سے فرسٹ کلاس کیرئیرکا آغاز کیا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف دو سائیڈ میچوں میں حصہ لیا۔ ٹیسٹ میں بارہویں کھلاڑی بنے۔

آسٹریلیا کے خلاف ڈھاکہ میں  پہلے ٹیسٹ میں ڈنکن شارپ نے 56 رنز کی کارآمد اننگز کھیلی (فوٹو: ہارون رشید)

سنہ 1959میں پاکستان ایگلٹس کے ساتھ دورۂ انگلینڈ میں انہوں نے کپتان اور سٹار بلے باز سعید احمد کو رنز کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا۔ اس دورے میں ان کی شاندار کارکردگی قومی ٹیم میں ان کی شمولیت کی بنیاد بنی۔
   پاکستانی واپسی پر ٹرائل میچ میں سینچری نے ٹیسٹ کرکٹ کے دروازے ان پر کھول دیے۔ لالہ امرناتھ نے فضل محمود سے کہا کہ شارپ کو آنکھیں بند کرکے پاکستان ٹیم میں شامل کر لینا چاہیے۔ ٹیم میں تجربہ کار وکٹ کیپر امتیاز احمد کی موجودگی ان کے رستے میں رکاوٹ تھی، جس کا حل یہ نکالا گیا کہ وہ سپیشلسٹ بلے باز کے طور پر ٹیم کا حصہ بن گئے۔
انہوں نے اپنا انتخاب درست ثابت کردیا۔ آسٹریلیا کے خلاف ڈھاکہ میں  پہلے ٹیسٹ میں 56 رنز کی کارآمد اننگز کھیلی۔ بدقسمتی سے رن آوٹ ہو گئے۔ پاکستان ٹیم نے 200 رنز بنائے۔ دوسری اننگز میں پاکستان ٹیم 134رنز پر آؤٹ ہوئی۔ ڈنکن شارپ نے سب سے زیادہ 35 رنز بنائے۔ اگلے دو ٹیسٹ میچوں میں وہ خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔
اس سیریز کے بعد پاکستان نے فضل محمود کی کپتانی میں انڈیا جانا تھا۔ ڈنکن شارپ کی ٹیم میں شمولیت کا خاصا امکان تھا۔ وہ ابھرتے ہوئے کرکٹر تھے اور ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی ان کی کارکردگی اچھی تھی۔ انڈیا کے لیے ٹیم منتخب ہوئی تو انہیں ڈراپ کرکے بلے باز اور ریزرو وکٹ کیپر کی حیثیت سے اعجاز بٹ کو سکواڈ کا حصہ بنا لیا گیا جس میں ان کے با اثر سسر چودھری محمد حسین کا بھی کردار تھا۔
اس صورت حال پر شارپ کو بڑی مایوسی ہوئی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی حق تلفی ہوئی ہے۔ دو ماہ پہلے وہ سٹار تھے، رچی بینو نے تین پاکستانی کھلاڑیوں سعید احمد، ویلس میتھائس اور شارپ کو مستقبل کی امید قرار دیا تھا اور اب سولہ رکنی سکواڈ میں ان کی جگہ نہیں بن رہی تھی۔
معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر نعمان نیاز نے لکھا ہے کہ شارپ انڈیا میں فرسٹ چوائس وکٹ کیپر کے طور پر جانا چاہتے تھے، لیکن سلیکٹروں کے خیال میں ان کی سپیشلسٹ بلے باز کی حیثیت سے جگہ بنتی تھی۔  

آصف اقبال کبھی حریف ٹیم میں تھے اور پھر پاکستان ٹیم کا حصہ بنے۔ (فوٹو: ایکس)

قومی ٹیم میں منتخب ہونے کا رستہ مسدود ہوتے دیکھ کر وہ ناراض ہو گئے۔ آسٹریلین ٹیم کے دورے کے دوران ان کی ریزرو وکٹ کیپر بیری جرمن سے دوستی ہو گئی تھی جسے بروئے کار لاکر وہ آسٹریلیا چلے گئے۔
جنوبی آسٹریلیا کی ٹیم میں سپیشلسٹ بلے باز کے طور پر کھیلنے لگے۔ چند سال اس ٹیم کی نمائندگی کی۔ بڑے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا۔ پاکستان ٹیم کے خلاف 43 رنز بنائے۔ حنیف محمد نے شارپ سے کہا کہ پہلے کے مقابلے میں تمھارا فٹ ورک بہت بہتر ہوا ہے۔ آسٹریلیا میں انہوں نے 61 سے لے کر 65 تک شیفلڈ شیلڈ میں حصہ لیا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں وہ بہت زیادہ کامیاب کرکٹر کے طور پر سامنے نہیں آئے۔ ادھر اعجاز بٹ، جن کی قومی ٹیم میں شمولیت شارپ کے پاکستان چھوڑنے کی وجہ بنی، ان کا کرکٹ کیرئیر بھی آٹھ ٹیسٹ میچوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ امتیاز احمد نے اگست 1962میں آخری ٹیسٹ کھیلا۔
 میری دانست میں ڈنکن شارپ اگر تھوڑا صبر سے کام لیتے تو عین ممکن ہے پاکستان ٹیم میں مستقل جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے، لیکن ان کے مزاج کی تندی نے انہیں دوسرا راستہ دکھایا جو کرکٹر کی حیثیت سے ان کے لیے زیادہ ثمرآور نہیں رہا۔
آسٹریلیا میں ان کے بہی خواہوں میں سر ڈان بریڈ مین بھی شامل تھے جن کی وجہ سے انہیں ایڈیلیڈ اوول میں کیوریٹر کے اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ آگے چل کر میلبورن میں پارک اور باغات کے فورمین کی نوکری کرنے لگے اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ اس زمین نے ان کے پاؤں ایسے جکڑے کہ 60 سال سے زائد عرصہ گزر گیا وہ ایک دفعہ بھی پاکستان نہیں آئے، جس کے مختلف شہروں سے ان کی یادیں وابستہ ہیں۔ ان کا تذکرہ بہرحال کسی نہ کسی بہانے ہوتا ہی رہتا ہے جس کی دو نمایاں مثالیں اسلم کمال کی یادداشتیں اور کرکٹ رائٹرز رچرڈ ہیلر اور پیٹر اوبورن کی کتاب ہے۔

شیئر: