Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کچھ رہنما جیلوں میں تو کچھ روپوش، لاہور تحریک انصاف کی قیادت سے محروم؟

دھاندلی کے خلاف احتجاج کے دوران صحافتی حلقوں نے بھی نوٹ کیا کہ کارکنان تو آ رہے ہیں لیکن مرکزی قیادت اور منتخب اراکین تاحال غیر حاضر ہیں۔
گذشتہ ہفتے پاکستان تحریک انصاف نے مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک گیر احتجاج ریکارڈ کرایا جس میں پنجاب بھر میں 30 سے زائد مقامات پر پی ٹی آئی کی ریلیاں نکالی گئیں جبکہ لاہور جی پی او چوک احتجاج کا مرکز رہا۔
لاہور میں احتجاج کے دوران وکلاء اور کارکنان کی بڑی تعداد شامل رہی جبکہ الیکشن ہارنے والے پی ٹی آئی رہنماء بھی موجود تھے جن کا الزام ہے کہ انہیں دھاندلی کے ذریعے ہروایا گیا تاہم پارٹی کی مرکزی قیادت اور منتخب اراکین منظر سے غائب رہی۔
پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت مجموعی طور پر منتشر ہو چکی ہے، کئی رہنماء یا تو جیلوں میں قید ہیں یا پھر روپوش ہیں۔ ماضی میں ایسے مواقع پر ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت حماد اظہر اور دیگر رہنماء لاہور میں پارٹی کی کمان سنبھالتے رہے ہیں تاہم حماد اظہر ایکس پر تو متحرک نظر آتے ہیں لیکن گراؤنڈ پر وہ غیر حاضر ہوتے ہیں۔
اسی طرح یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور کئی دیگر رہنماء نو مئی واقعات کے بعد قانون کا سامنا کر رہے ہیں۔ 
ایک وقت تھا جب مراد راس، میاں اسلم اقبال، مسرت جمشید چیمہ اور کارکنان میں صنم جاوید، طیبہ راجہ اور دیگر متحرک نظر آتے تھے لیکن اب ان میں سے کئی رہنماء دیگر جماعتوں میں شامل ہو گئے ہیں جبکہ متعدد یا تو جیلوں میں ہیں یا پھر روپوش ہوچکے ہیں اس لیے اکثر اوقات پی ٹی آئی لاہور کی سرگرمیوں میں ان کی عدم موجودگی محسوس کی جاتی ہے۔
اب لاہور میں پی ٹی آئی کا زیادہ تر دار و مدار سردار لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجہ، اعجاز بٹر اور دیگر وکلاء پر ہوتا ہے لیکن الیکشن کے بعد اِن میں سے جو اراکین منتخب ہو کر اسمبلی جا چکے ہیں وہ احتجاج میں غیر حاضر رہے جبکہ دھاندلی کا الزام لگانے والے نامزد امیدواران احتجاجوں اور دیگر سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
یہ عدم موجودگی وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے موقع پر بھی محسوس کی گئی جب سب کی نظریں وزارت اعلیٰ کے امیدوار میاں اسلم اقبال پر تھیں تاہم وہ ممکنہ گرفتاری کی وجہ سے اسمبلی نہ آسکے۔ 
مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کے دوران صحافتی حلقوں نے بھی نوٹ کیا کہ کارکنان تو آ رہے ہیں لیکن مرکزی قیادت اور منتخب اراکین تاحال غیر حاضر ہیں۔

پنجاب بھر میں 30 سے زائد مقامات پر پی ٹی آئی کی ریلیاں نکالی گئیں جبکہ لاہور جی پی او چوک احتجاج کا مرکز رہا (فوٹو: سوشل میڈیا)

لاہور میں احتجاج کا مرکز جی پی او چوک تھا جہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی جہاں پولیس نے کئی کارکنان کو گرفتار بھی کیا۔ پی ٹی آئی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے نجی چینل سے منسلک صحافی عمر دراز گوندل نے اُردو نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے حافظ فرحت عباس نے ریلی نکالی اور ایکس پر بھی دکھائی لیکن وہ جی پی او چوک نہیں پہنچ سکے۔
’اسی طرح سلمان اکرم راجہ، اعجاز بٹر اور شبیر گجر جی پی او چوک پر موجود تھے لیکن یہ جیتے تو نہیں ہیں۔ اعجاز بٹر گرفتار ہوئے جبکہ سلمان اکرم راجہ ہائی کورٹ میں موجود رہے۔ 
پی ٹی آئی لاہور کے ایم این ایز اور ایم پی ایز احتجاج میں نظر نہیں آئے، اس کی وجہ عمر دراز گوندل نے یہ بتائی کہ ’ہم نے جب کئی رہنماؤں سے رابطہ کیا تو وہ یہی پوچھتے رہے کہ گرفتاری ہو رہی ہے یا نہیں؟ وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ عوام ہیں کہ نہیں اور یہ مریم نواز کی حکومت میں پہلا احتجاج ہے تو وہ سمجھنا چاہتے تھے کہ حکومت کا ردعمل کیا ہوگا؟‘
انہوں نے منتخب اراکین اور لاہور کی قیادت کی عدم موجودگی کو کمزور حکمت عملی قرار دیا۔ ان کے بقول ’پنجاب کا اگر دیگر صوبوں سے موازنہ کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پی ٹی آئی اِس وقت یہاں دفاعی پوزیشن پر ہے۔ لاہور کی قیادت حکومتی تیور سمجھنے سے پہلے باہر نہیں نکلنا چاہتی۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی اس تاثر کو رد کرتی ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی نے رانا آفتاب احمد کو آخری لمحات میں وزارت اعلٰی کے لیے نامزد کیا تھا۔ رانا آفتاب احمد نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’پنجاب کے دیگر حلقوں میں پی ٹی آئی قیادت کی دلچسپی برقرار ہے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ کئی اضلاع میں خود ایم پی ایز نے ریلیاں نکالیں لیکن ایم این ایز اسلام آباد میں ووٹنگ کی وجہ سے نہیں آ سکے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’شیخوپورہ، ملتان، فیصل آباد ہر جگہ لوگوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ اگر کوئی ایم پی اے دیر سے پہنچا ہو وہ الگ بات ہے لیکن میرے مطابق ہمارے ایم پی ایز موجود تھے۔‘
لاہور میں قیادت کی احتجاج میں عدم موجودگی پر ان کا کہنا تھا کہ ’لاہور میں اگر نہیں آ سکے تو پنجاب کے دیگر علاقوں میں ایم پی ایز موجود تھے. ان کے بقول ’سیاسی جماعت کی اصل طاقت کارکن ہوتے ہیں اور ہماری جماعت نظریے کی بنیاد پر قائم ہے۔ میں اگر نہ بھی ہوں تو میرے کارکن جلوس نکال سکتے ہیں۔‘

عمر دراز گوندل نے کہا کہ ’پی ٹی آئی رہنماؤں سے رابطہ کیا تو وہ یہی پوچھتے رہے کہ گرفتاری ہو رہی ہے یا نہیں؟‘ (فوٹو: اے ایف پی)

لاہور میں پی ٹی آئی کی قیادت کی عدم توجہی اُس وقت بھی دیکھی گئی جب سروسز ہسپتال میں پی ٹی آئی کارکن احمد شاہ زیر علاج تھے۔ پی ٹی آئی رہنماء حماد اظہر نے ایکس پر کارکنان کو سروسز ہسپتال پہنچنے کی درخواست کی تاہم وہ اور پی ٹی آئی کے منتخب اراکین وہاں نہیں پہنچ سکے۔
اس دوران سلمان اکرم راجہ اور دیگر وکلاء ہسپتال پہنچے تاہم وہ میڈیا کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد واپس چلے گئے اور ایکس پر لوگوں کو آگاہ کرتے رہے۔ اس حوالے سے رانا آفتاب احمد بتاتے ہیں کہ وہ خود اُس دن فیصل آباد میں تھے جس کی وجہ سے وہ نہیں جا سکے۔
’ہمیں معلوم ہے کہ سروسز ہسپتال میں ہمارا ایک کارکن زخمی حالت میں تھا اور اس کے بھائی پر مقدمہ ہوا تھا لیکن میں اُس دن فیصل آباد گیا تھا۔  ہم پنجاب اسمبلی میں اس معاملے پر تحریک پیش کریں گے اور  حکومت سے ضرور پوچھیں گے۔‘
واضح رہے کہ لاہور میں احتجاج کے وقت قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 117 سے پی ٹی آئی کے امیدوار علی اعجاز بُٹر، این اے 119 سے میاں شہزاد فاروق، پی پی 149 سے حافظ ذیشان رشید،  پی پی 158 سے میاں شرافت علی اور ایڈووکیٹ آفتاب گرفتار ہوئے تھے۔
یہ وہ نامزد اُمیدوار ہیں جنہوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ احتجاج کے دوران کئی ماہ سے روپوش رہنماء زبیر خان نیازی بھی آئے لیکن ان کے علاوہ جی پی او چوک پر پی ٹی آئی کی قیادت نہیں پہنچ سکی۔

شیئر: