Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ نے اپنی متفقہ رائے میں کہا ہے کہ ملک کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا۔
بدھ کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے رائے سناتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی بھٹو کیس میں کارروائی بنیادی انسانی حقاق کے مطابق نہیں تھی، کیس میں فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے۔
رائے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ملنے والی والی سزا آئین و قانون کے مطابق نہیں تھی۔
نو رکنی لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے 4 مارچ کو صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کرتے ہوئے رائے محفوظ کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنی متفقہ رائے میں مزید کہا کہ تاریخ میں کچھ کیسز ہیں جنہوں نے تاثر قائم کیا کہ عدلیہ نے ڈر اور خوف میں فیصلہ دیا۔ ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔‘
ریفرنس مں اٹھائے گئے پانچ سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا ’اسلامی اصولوں کے مطابق فیصلہ ہونے یا نہ ہونے پر رائے نہیں دے سکتے۔ اسلامی اصولوں پر کسی فریق نے معاونت نہیں کی۔‘
’آٸینی تقاضے پوری کیے بغیر ذوالفقار علی بھٹو کو سزا دی گٸی۔ ریفرنس میں مقدمے کے شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ ریفرنس میں پوچھا گیا دوسرا سوال واضح نہیں اس لیے رائے نہیں دے سکتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی۔‘
سابق صدر آصف علی زرداری نے سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی سزائے موت سے متعلق آرٹیکل 186 کے تحت 2011 میں سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل سے متعلق پانچ سوالوں پر اپنی رائے دی۔ فوٹو: اے ایف پی

عدالتی معاونین سابق جسٹس منظور ملک، وکیل مخدوم علی خان، وکیل صلاح الدین، سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید اور بیرسٹر اعتزاز احسن نے کیس پر اپنے دلائل پیش کیے تھے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک اور رضا ربانی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو چار اپریل 1979 کو دی جانے والی پھانسی کے خلاف سال 2011 میں اس وقت کے صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔
اس ریفرنس میں ذوالفقارعلی بھٹو کے ٹرائل اور پھانسی پر نظرثانی کے حوالے سے عدالت سے رائے طلب کی گئی تھی۔
صدارتی ریفرنس میں آصف زرداری کے سپریم کورٹ سے پانچ سوال
ریفرنس میں سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ جائزہ لے کہ کیا بھٹو کے قتل کا مقدمہ آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا، کیا بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدالتی نظیر کے تحت لاگو ہو سکتا ہے، سزائے موت کا یہ فیصلہ منصفانہ اور جانبدارانہ نہیں تھا، کیا یہ سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے اور کیا اس مقدمے میں پیش کیے گیے ثبوت اور گواہان کے بیانات بھٹو کو سزائے موت دینے کے لیے کافی تھے؟
جب یہ صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تو اس وقت افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے جن کی سربراہی میں ایک لارجر بینچ نے اس کی چھ ابتدائی سماعتیں کیں۔
کیس کی پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی تاہم 12 نومبر 2012 کو اس ریفرنس کی چھٹی اور اب تک کی آخری سماعت کے بعد یہ مقدمہ پھر عدالت میں نہیں لگا اور اب 11 سال بعد چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں ایک مرتبہ پھر سنا گیا۔
نومبر 2012 کے بعد سے اب تک پاکستان کے 8 چیف جسٹس صاحبان مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں۔ 

شیئر: