Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں مخالف پارٹیوں کا بوریا بستر کیسے گول کیا؟

یکم مارچ 2024 کو خیبرپختونخوا اسمبلی ہال میں نعرہ بازی جاری تھی کہ سپیکر صوبائی اسمبلی بابرسلیم سواتی نے گیلری میں بیٹھے تحریک انصاف کے نعرہ زن ورکرز کو متنبہ کیا کہ ’اگر آپ خاموش نہ ہوئے تو آپ لوگوں کو ہال سے باہرنکال دیا جائے گا۔‘
وقتی طور پر خاموشی چھاگئی اور سپیکر بابر سلیم نے وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ علی امین گنڈاپور نے 90 اور ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے ڈاکٹرعباد اللہ نے 16 ووٹ حاصل کیے۔
اسمبلی ہال میں ایک مرتبہ پھر عمران خان کی حمایت میں نعرہ بازی شروع ہوگئی، اس شدید نعرہ بازی کے دوران یاد آیا 1997 میں جب اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے کی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ سردارمہتاب عباسی کا انتخاب ہورہا تھا تو انہوں نے پچاس سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے اور ان کے مدمقابل امیدوار نے صرف آٹھ ووٹ حاصل کیے تھے۔
1988  سے 2024 کے انتخابات تک مسلم لیگ ن نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں تین مرتبہ 1990، 1993 اور1997 میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے تین وزرائے اعلیٰ میرافضل خان، پیرصابر شاہ اور سردار مہتاب عباسی کو منتخب کرایا۔
ایسا کیا ہوا کہ تین مرتبہ وزرائے اعلیٰ منتخب کرانے والی مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا اسمبلی میں سکڑ کر گنتی کے چند نشستوں تک محدود ہوگئی۔
اسمبلی کی لائبریری کے ریکارڈ کو ٹٹولا تو پتہ چلا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اسی اسمبلی ہال سے دومرتبہ اپنا وزیراعلیٰ منتخب کرایا تھا۔

حالیہ انتخابات کے بعد اسمبلی میں پارٹی پوزیشن

خیبرپختونخوا اسمبلی کے 145 کے ایوان میں اب تک 118 اراکین اسمبلی حلف اٹھا چکے ہیں جن میں پانچ اپوزیشن جماعتوں جمعیت علمائے اسلام ، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین اور عوامی نیشنل پارٹی کے مجموعی ایم پی ایز کی تعداد 25 ہے۔
انہیں ایک آزاد رکن ہشام انعام اللہ کی بھی حمایت حاصل ہے۔ حزب اختلاف کی ان پانچ جماعتوں میں چارجماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے ماضی میں خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار رہے۔
پیپلزپارٹی 1988 اور پھر 1994 میں صوبائی حکومت کی سربراہی کی۔
 جمعیت علمائے اسلام متحدہ مجلس عمل کی صورت میں 2002 سے 2008 تک اقتدار کی سنگھاسن پر بیٹھی رہی۔
عوامی نیشنل پارٹی کو پیپلز پارٹی کی حمایت سے 2008 میں پانچ سال تک اقتدارنصیب ہوا۔
اس وقت خیبر پختونخوا اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کے حلف اٹھانے والے اراکین کی تعداد نو ہے، مسلم لیگ ن کے ایم پی ایز کی تعداد 8، پیپلزپارٹی کے ایم پی ایز کی تعداد پانچ، پی ٹی آئی پی کے ایم پی ایز کی تعداد دو اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن ہے۔

ماضی کی حکمران جماعتیں کیوں مسلسل زوال پذیر ہیں؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے مختلف ادوار کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

1997 میں مسلم لیگ ن کے سردار مہتاب عباسی اے این پی کی حمایت سے وزیراعلی بن گئے۔ (فوٹو: اے پی پی)

خصوصاً 2002 سے 2024 تک کے انتخابات کے نتائج کے اعدادوشمار کا مشاہدہ کیا گیا تو کئی وجوہات سامنے آگئیں۔
2002  میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 124 تھی جن میں جمعیت علماءاسلام کے ایم پی ایز کی تعداد 45 سے زائد تھی۔ 2008 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی کے ایم پی ایز کی تعداد 43 تھی۔ اسی طرح ان حکومتوں کی اتحادی جماعت اسلامی کو 2002 میں 17 اور2013 میں سات نشستیں ملی تھیں۔
پیپلزپارٹی کو 2008 میں 26 نشستیں ملی تھیں لیکن 2013 اور 2018 میں یہ تعداد کم ہو کر سات اورپانچ تک آگئی۔
لیکن اس دوران پاکستان تحریک انصاف نے پہلی مرتبہ 1997 میں اپنی واحد نشست نوابزادہ محسن علی خان کی شکل میں جیتی تھی۔
2008  میں پی ٹی آئی نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔ 2013 میں ان کی نشستوں کی تعداد 57 ہوگئی۔
2018 کے انتخابات میں انہیں 145 کے ایوان میں 96  نشستیں ملیں۔

تحریک انصاف کی کامیابی اور دیگرسیاسی جماعتوں کی ناکامی کی بڑی وجوہات

مرکزی بیانیہ:

پاکستان تحریک انصاف 2011 کے بعد مسلسل دیگرسیاسی جماعتوں کے خلاف بیانیہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔


طاقتور قیادت اور مضبوط مرکزی بیانیے کے باعث پاکستان تحریک انصاف کومسلسل کامیابیاں ملتی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 ان کا یہ بیانیہ صرف ایک علاقے تک محدود نہیں۔ پی ٹی آئی نے اس بیانیے کے تحت مسلم لیگ ن کو پنجاب میں، پیپلزپارٹی کو سندھ میں اور تمام جماعتوں کو خیبرپختونخوا میں نشانہ بنایا۔
اس بیانیے کے لیے عمران خان کی مرکزی لیول کی قیادت کا استعمال کیا گیا۔
طاقتور قیادت اور مضبوط مرکزی بیانیے کے باعث پاکستان تحریک انصاف کومسلسل کامیابیاں ملتی گئی لیکن اس کے مقابلے میں خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی مرکزی قیادت ہونے کے باوجود کوئی بیانیہ نہیں بن پایا۔
بعض اوقات ان سیاسی جماعتوں کے بدلتے ہوئے موقف کا فائدہ بھی پاکستان تحریک انصاف نے پہلے 2013 اور پھر2018 میں بھرپور انداز میں اٹھایا۔

ووٹرز کے ڈیٹا کا کنٹرول

پاکستان تحریک انصاف نے صوبائی حکومت کے اس ڈیٹا کا بھرپور استعمال کیا جو انہوں نے صحت کارڈ اور بے نظیرانکم سپورٹ سروے کے ذریعے حاصل کیا تھا۔
پی ٹی آئی نے 2019 میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرکے احساس پروگرام رکھا تھا اوراس متعلق نیا ڈیٹا مرتب کیا تھا۔
انتخابات سے قبل جہاں تحریک انصاف 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں شدید زیرعتاب تھی تو اس دوران پارٹی کا ایک علیحدہ سیکشن صحت کارڈ کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے اس سے مستفید ہونے والوں کے ساتھ رابطہ استوار رکھا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے صحت کارڈ استعمال کرنے والوں کے لواحقین کو کال کی جاتی اور انہیں بتایا جاتا کہ کیا انہوں نے صحت کارڈ سے مفت علاج کی سہولت حاصل کی ہے؟
مثبت جواب آنے کی صورت میں پی ٹی آئی کا ورکرز ان مریضوں کے لواحقین کو آگاہ کرتا کہ اگر آپ اس طرح کا پروگرام جاری رکھنا چاہتے ہیں تو عمران خان کوووٹ دیں.

پی ٹی آئی کے مقابلے میں  دیگرسیاسی جماعتوں نے خیبر پختونخوا میں کسی بھی طور پر ڈیٹا کا استعمال نہیں کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہ کالز ہزاروں کی تعداد میں خیبرپختونخواکے مختلف علاقوں میں صحت کارڈ سے مستفید ہونے والے لوگوں کو کیے گئے۔
اس کے مقابلے میں دیگرسیاسی جماعتوں نے خیبر پختونخوا میں کسی بھی طور پر ڈیٹا کا استعمال نہیں کیا۔
جماعت اسلامی نے الخدمت فاﺅنڈیشن کے ذریعے اربوں روپے تقسیم کیے لیکن جماعت اسلامی الخدمت فاؤنڈیشن سے مستفید ہونے والوں کے ڈیٹا سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکی۔

ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال

پی ٹی آئی نے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کو اپنے تصرف میں رکھا۔
انہوں نے مختلف بین الاقوامی فورمز سے وہ ڈیٹا حاصل کیا کہ کس علاقے میں فیس بک زیادہ دیکھا جاتا ہے؟ انسٹاگرام کا استعمال کہاں کیا جاتا ہے؟
ٹک ٹاک کا استعمال معاشرے کا کونسا طبقہ کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ہر سوشل میڈیا فورم کے لیے اور ٹاگٹڈ ناظرین کے ذہنی سطح کے مطابق علیحدہ علیحدہ مواد تیار کیا۔
 ٹیکنالوجی کے اس استعمال کے دوران انہوں نے بچوں، خواتین اورمعمر افراد تک پہنچنے کے لیے خصوصی کوشش کی اور انہیں وہی معلومات دی گئیں جو ان کی پارٹی کے منشور سے مطابقت رکھتا تھا۔
اس کے مقابلے میں دیگر سیاسی جماعتوں نے ٹیویٹر اور فیس بک پر پیجز بنا کر صرف عام پیغامات کو عوام تک پہنچانے پراکتفا کیا جس کی وجہ سے انہیں عوامی سطح پر پذیرائی نہ مل سکی۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا استعمال

خیبر پختونخوا کے 27 لاکھ سے زائد افراد خلیجی و یورپی ممالک میں روزگار کی غرض سے رہائش پذیر ہیں۔ اپنے علاقے کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس عام میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستان سوشل میڈیا سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے ان لوگوں کو اپنا ہدف بنائے رکھا۔ یورپ سے لے کر خلیجی ممالک تک ان کو سامنے رکھتے ہوئے باقاعدہ طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا احسن طریقے سے استعمال ہوا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں یہ لوگ نہ صرف 2024 کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے آئے بلکہ انہوں نے اپنے خاندانوں کو بھی باور کرایا کہ پی ٹی آئی ہی اس ملک کی نجات دہندہ جماعت ہے۔
 اس کے مقابلے میں دیگرسیاسی جماعتوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو نظرانداز کیے رکھا۔

 ووٹنگ کے عمل میں نوجوانوں کا کردار

کسی زمانے میں سب سے زیادہ نوجوان طبقہ جماعت اسلامی اورعوامی نیشنل پارٹی سے متاثر ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ اور پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سینکڑوں نوجوان ہر سال ڈگری حاصل کرتے تھے۔
لیکن روایتی سیاسی ماحول کے باعث ان دونوں جماعتوں کے حجم میں کافی کمی آتی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2010 کے بعد نوجوانوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اپنی طرف راغب کیا اور انہیں یہ بات ازبر کرائی کہ روایتی سیاست ہی اس ملک کے مسائل کی جڑ ہے۔ ملک کو روایتی سیاست سے نجات دلانا ہوگا۔
پی ٹی آئی نے یوتھ فیکٹر کا استعمال کرتے ہوئے روایتی سیاست کو آڑے ہاتھوں لیا جس کی وجہ سے انہیں نہ صرف بہت زیادہ پذیرائی بلکہ مقبولیت ملی۔ اس مقبولیت کا پی ٹی آئی نے انتخابی عمل کے دوران ووٹرز کو راغب کرنے کے لیے بھرپور استعمال کیا۔

گذشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران سیاست میں تقسیم کا عمل اس اندازمیں ہوا کہ روایتی اور غیر روایتی سیاست الگ الگ قطبین کی جانب چلی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے مقابلے میں عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگرسیاسی جماعتیں علاقائی عمائدین، خوانین اورصاحب حیثیت لوگوں تک محدود رہی۔
 اس دوران جمعیت علما اسلام نے کوشش کی کہ مذہب کے لبادے کے بغیر بھی بغیر داڑھی کے لوگوں کو ٹکٹ دے کر انتخابی عمل میں اتارا جائے لیکن مضبوط بیانیہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کامیابی نہیں ملی۔

معاشرے کی سیاسی تقسیم

گذشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران سیاست میں تقسیم کا عمل اس اندازمیں ہوا کہ روایتی اور غیر روایتی سیاست الگ الگ قطبین کی جانب چلی گئی۔
 پاکستان تحریک انصاف نے اس معاشرتی تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے قطب کے لوگوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
معاشرے کا یہ تقسیم تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر، خاندانی نظام، کاروباری حلقوں اور دیگر طبقوں تک بھی نمایاں رہا۔
یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اگرآپ عمران خان کےساتھ ہیں تو آپ ٹھیک ہیں لیکن اگر آپ عمران خان کے ساتھ نہیں تو آپ چوروں کے ساتھی ہیں۔
اس دوران دیگرسیاسی جماعتوں نے اس عمل سے وقتی طور پر کنارہ کشی اختیار کی لیکن تحریک انصاف اس کے ثمرات کو مکمل طور پر سمیٹ چکی تھی۔

اسٹبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہونا

2019  میں پشتون تحفظ مومنٹ نے نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف عوامی تحریک شروع کی اور اس دوران انہوں نے ملٹری اسٹبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا تو خیبر پختونخوا میں انہیں بہت زیادہ پذیرائی ملی۔
اس کی بڑی وجہ یہاں فوجی آپریشن کے نتیجے میں متاثرہ لوگوں کا ان کا ساتھ دینا تھا۔
 2022 میں اقتدارکی مسند سے نکلنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے سب سے پہلے امریکہ کو بدف تنقید بنایا اور اس کے بعد انہوں نے ملٹری اسٹبلشمنٹ کو کھلے عام نشانے پر رکھ لیا۔
ملٹری اسٹبلشمنٹ پر تنقید کو وہ عوامی سطح پر لے گئے اور ایک عوامی بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو ہٹا کر ان کے بقول کرپٹ لوگوں کو حکومت دی۔

پی ٹی آئی کے مقابلے میں  دیگر سیاسی جماعتیں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار سے متعلق تذبذب کا شکار رہی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سخت تنقید کو مہمیز پی ڈی ایم حکومت کی 16 ماہ کی کارکردگی نے دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں اس طرح کے بیانیے سے بہت فائدہ ہوا اور بہت سے متاثرہ لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔
اس کے مقابلے میں دیگر سیاسی جماعتیں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار سے متعلق تذبذب کا شکار رہیفوٹ۔
 انتخابات کے بعد جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی نے کھل کر ملٹری اسٹبلشمنٹ کو تنقید کانشانہ بنایا لیکن تب تک عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے تھے۔

تحریک انصاف کے مقابلے میں کمزور اپوزیشن

پاکستان تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ 2013 اورپھر 2018 کے انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی۔
اس دوران پی ٹی آئی کو شدید اندرونی وبیرونی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
لیکن پاکستان تحریک انصاف کی ان کمزوریوں کا اپوزیشن نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔
سابق وزیراعلیٰ محمود خان ساڑھے چار سالوں کے دوران صرف 9 مرتبہ صوبائی اسمبلی میں تشریف لائے تھے۔

2008 میں اے این پی نے پی پی پی کے ساتھ مل کر خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے عمران خان کے کہنے پر وقت سے پہلے اسمبلی کو بھی تحلیل کیا، صحت کارڈ سے متعلق کئی امور  بھی سامنے آئے۔
پی ٹی آئی حکومت نے  ترقیاتی فنڈز بھی پوری طرح اور موثر طریقے سے استعمال نہیں کیا، قبائلی اضلاع میں ترقیاتی کام بھی نہیں کیے گئے لیکن خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں نے ان امور کو کیش ہی نہیں کیا اور عوام تک ان مسائل کو کبھی لیکر نہیں گئے۔
اسمبلی ریکارڈ کے مطابق جہاں پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں 96 اراکین کی حمایت حاصل تھی وہی سال 2022 میں اراکین کی عدم دلچسپی کے باعث 23 بار صوبائی اسمبلی کا کورم ٹوٹا۔
لیکن اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف کی ان غلطیوں کو طشت ازبام نہیں کیا اور نہ ہی ان سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔
 پی ٹی آئی کے ایک سابق صوبائی وزیر نے اسمبلی کی تحلیل کے اگلے دن بتایا کہ ’جتنی غلطیاں ہم نے کیں یا ہم سے سرزد ہوئیں اگر اتنی غلطیاں اپوزیشن جماعتوں سے ہوتیں تویقین جانیے پی ٹی آئی ان امور کو کیش کرتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعتوں کا حشر نشر کردیتی۔‘

شیئر: