Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج کے ’علی بابا‘، جن کے لیے انٹرنیٹ ’کُھل جا سم سم‘ ٹھہرا

جیک ماہ ای کامرنس کمپنی ’علی بابا‘ کے بانی اور مالک ہیں (فوٹو: علی بابا ڈاٹ کام)
اگر کہیں 23 آسامیاں نکلیں اور دی جانے والی 24 درخواستوں میں سے ایک آپ کی ہو، یعنی کام ہو جانے کے تقریباً 98 فیصد امکانات ہوں مگر مسترد ہونے والی درخواست آپ کی ہی نکلے، تو خود کو نکما وغیرہ نہ سہی بدقسمت سمجھا جا ہی سکتا ہے، مگر انہوں نے ایسا سوچا نہ سمجھا۔
جب کسی طور میٹرک کر گزرنے کے بعد آپ کالج میں داخلے کا ٹیسٹ تین بار فیل کر دیں اور پھر شہر کے بدترین سمجھے جانے والے کالج میں داخلہ لینا پڑے، تو پھر تو خود کو نالائق سمجھنا بنتا ہے، مگر انہوں نے ایسا نہیں سمجھا۔
اس طرح کے مزید مقامات سے ’مسترد‘ ہونے کے بعد اس شخص نے ’استرداد‘ کے قدمچوں سے زینہ بنایا اور آج وہ دنیا کے چند امیر ترین لوگوں میں شامل ہیں۔
عربی میگزین الرجل میں ایک ایسی پرعزم شخصیت کے بارے میں فیچر شائع کیا گیا ہے جنہوں نے کچھ عرصہ قبل ایک یونیورسٹی میں خطاب میں کہا کہ ’بار بار مسترد ہونے نے مجھے کاروباری دنیا کا اہم سبق سمجھایا کہ کامیاب ہونے کے لیے انسان کو ناکامی کا عادی ہونا چاہیے، ایک باکسر کی طرح، اگر آپ مکا نہیں سہہ سکتے تو پھر جیتیں گے کیسے۔‘
یہ الفاظ ہیں چین سے تعلق رکھنے والے جیک ما کے جن کا نام دنیا کے امیر ترین لوگوں میں آتا ہے۔

’ٹربل میکر‘ بچہ

10 ستمبر 1964 کو چینی شہر ہانگ زو میں پیدا ہونے والے بچے نے چند برس میں ہی اپنے اردگرد بسنے والوں کو اس قدر ستایا کیا کہ ان کے ایک رشتہ دار نے انہیں ’ٹربل میکر‘ یعنی پریشان کرنے والا بچہ قرار دیا۔
ان کا گھرانہ کافی غریب تھا، ان کے والد اور والدہ ایسے فنکار تھے جو روایتی موسیقی کے ساتھ قدیم کہانیاں پیش کیا کرتے تھے جس کو ’پنگ ٹین‘ کہا جاتا ہے۔

بار بار ناکام ہونے والے جیک ماہ کا کہنا ہے کہ ’کامیاب ہونے کے لیے انسان کو ناکامی کا عادی ہونا چاہیے‘ (فوٹو: شٹرسٹاک)

وہ کمیونسٹ چین میں پلے بڑھے جو مغرب سے قطعی الگ تھا۔ چین کی مشہور کتاب ’علی بابا‘ میں جیک ما کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ بہت جھگڑے کرتے تھے۔
جبکہ خود جیک ما کا کہنا ہے کہ ’میں اپنے سے بڑے لڑکوں سے کبھی نہیں ڈرا۔‘

عجیب و غریب عادتیں

بچپن میں ان کی عادتیں عجیب تھیں، وہ جھینگروں کو پکڑتے رہتے اور پھر ان کو آپس میں لڑایا کرتے تھے اور ان کے بارے میں ان کو اتنی معلومات حاصل ہو گئی تھیں کہ آواز سن کر جھینگر کی قسم اور سائز کا اندازا لگا لیا کرتے تھے۔
بہرحال میٹرک کے بعد 1988 میں اسی بدترین سمجھے جانے والے کالج سے گریجویشن کر ہی لی۔

90 کی دہائی کے دوران جیک ما کو چین کے لیے آن لائن انٹرنیٹ کمپنی بنانے کا خیال آیا (فوٹو: شٹرسٹاک)

نوکریاں ڈھونڈنے کا سلسلہ
ملازمت کی تلاش انہیں معروف فاسٹ فوڈ چین کے ایف سی بھی لے گئی جہاں سے حسب معمول انہیں مسترد کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک بار اپنے کزن کے ساتھ ایک ہوٹل میں ویٹر کی ملازمت کے لیے گیا، بہت گرم دن میں ہمیں کئی گھنٹے انتظار کروایا، پھر کزن کی تعلیمی قابلیت کم ہونے کے باوجود رکھ لیا اور مجھے جانے کا کہہ دیا گیا۔‘
پہلی کمائی 12 ڈالر
جیک ما کو انگریزی پسند تھی، انہوں نے سیاحوں کے لیے غیر روایتی گائیڈ کے طور پر کام شروع کیا، پہلے روز وہ سیاحوں کے ساتھ مختلف علاقوں میں گھومے، انہیں شہروں کے بارے میں معلومات دیں اور جاتے ہوئے سیاح انہیں 12 ڈالر دے گئے جس پر وہ بہت خوش تھے۔

جیک ما دنیا کی امیر ترین شخصیات میں شامل ہیں (فوٹو: شٹرسٹاک)

انٹرنیٹ کی گیدڑ سنگھی

یہ 20ویں صدی کی آخری دہائی کے وسط کا دور تھا، جیک ما کمپیوٹر کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے لیکن انٹرنیٹ نے اپنی طرف ایسا متوجہ کیا کہ وہ مسحور ہو گئے انہی دنوں کمپنی کی طرف سے امریکہ کا ایک دورہ کیا تو انہوں نے موزیک براؤزر پر ’بیئر‘ لکھا تو جو تصاویر ابھریں ان میں ایک بھی چینی بھالو نہیں تھا جس پر انہیں اپنے ملک کے لیے انٹرنیٹ کمپنی بنانے کا خیال آیا جس نے گویا ان کو گیدڑ سنگھی تما دی۔

سرمایہ کہاں سے لائیں؟

آئیڈیا بہت اچھا تھا مگر سوال سرمائے کا تھا کہ وہ کہاں سے لایا جائے، اس کے لیے انہوں نے اپنے 17 قریبی دوستوں کو اپنے اپارٹمنٹ پر بلایا اور آن لائن مارکیٹ بنانے کے بارے میں بتایا جس کے ذریعے ایکسپورٹرز اپنی اشیا کو انٹرنیٹ پر ڈسپلے کر سکیں گے اور صارفین ان کو خرید بھی  سکیں گے۔
دوستوں نے خیال کو پسند کیا اور کچھ پیسے وغیرہ اکٹھے کیے لیکن بات بنی نہیں۔

کُھل جا سم سم

’علی بابا‘ نام رکھنے کے حوالے سے جیک ما کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ’علی بابا 40 چور‘ والی مشہور کہانی تھی، جس میں ’کُھل جا سم سم‘ کا جملہ بھی تھا اور یہ رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کو مشہور ہونے میں مشکل نہیں ہو گی۔‘

جیک ما ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

اس وقت شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ نام بھی ان کے لیے وہی کام کرنے جا رہا ہے جو ’کھل جا سم سم‘ نے علی بابا کے لیے کیا تھا۔
جیک ما کی خوش قسمتی رہی کہ ٹوکیو کی مشہور کمپنی سافٹ بینک کو اس آئیڈیا کے بارے میں پتہ چلا اور اس نے جیک ما سے رابطہ کر کے کہا کہ وہ ان کے سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے۔ یوں 1999 میں کمپنی نے 20 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی، جس کے بعد گولڈمین بینک نے بھی پانچ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
منصوبے کے آغاز پر جیک ما نے پُرجوش انداز میں سٹاف میٹنگ میں کہا تھا کہ ’ہم یہ کر گزریں گے، کیونکہ ہم وہ جوان ہیں جو کبھی ہار نہیں مانتے۔‘

خوش مزاج باس

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خوش مزاج باس ہیں جو ملازمین کے ساتھ بڑے دوستانہ اور تکلفات سے آزاد رویہ رکھتے ہیں۔ پراجیکٹ کامیاب ہونے پر ان کی جانب سے ملازمین کو تحفے بھی دیے گئے۔

علی بابا دنیا کی سب سے بڑی ریٹیلر کمپنی ہے (فوٹو: علی بابا ڈاٹ کام)

بعدازاں یاہو نے بھی ان کی کمپنی میں ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری کی۔

کمپنی کی کامیابی کا یقین

جیک ما کہتے ہیں ایک روز وہ ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک شخص نے ان کا بل ادا کرنے کی پیشکش کی اور ساتھ ہی ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ بھی میز پر رکھا۔
جس میں لکھا تھا کہ ’میں علی بابا کا کسٹمر ہوں اور اس کی وجہ سے بہت پیسہ کما لیا ہے۔‘
جیک ما کے مطابق ’مجھے اس روز یقین ہو گیا کہ کمپنی کامیاب ہو گئی ہے۔‘
چینی شہر ہانگ زو سے اٹھنے والے اور مشہور ای کامرس سائٹ علی بابا کے مالک کی دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ان کے پاس موجود دولت 25 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔
ارب پتی کے پرانے دوست شیاؤ پنگ چین کا کہنا ہے کہ ’میرا نہیں خیال کہ اتنی دولت کمانے کے بعد بھی اس میں زیادہ تبدیلی آئی ہے، وہ اب بھی ویسا ہی ہے، جیسا تھا۔ وہ آج بھی کنگ فو کی افسانوی کہانیاں پڑھتا، مراقبہ کرتا اور مارشل آرٹس کھیلتا ہے۔‘

شیئر: