اسرائیل ایران کے حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ کے خلاف عسکری مہم کو آگے بڑھا رہا ہے، جس سے یہ امید ماند پڑ گئی ہے کہ فوری جنگ بندی کے لیے امریکی نمائندے کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔
امریکہ کی جانب سے ثالثی کے عمل میں شریک ایموس ہاکسٹین نے رواں ہفتے کے آغاز میں بیروت میں کہا تھا کہ ’ہم جنگ بندی کے قریب پہنچ گئے ہیں۔‘
انہوں نے واشنگٹن جانے سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز سے ملاقات بھی کی تھی۔
ان کے اس دورے کا مقصد لبنان کی جنوبی سرحد کے قریب اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک سال سے زائد عرصہ سے جاری دشمنی کو ختم کرنا تھا، جس میں اس وقت ڈرامائی تیزی دیکھنے کو ملی جب ستمبر کے آخر میں اسرائیل نے حملے تیز کیے اور یکم اکتوبر کو لبنان میں زمینی فوج داخل کی۔
رواں ہفتے سرحد کے قریبی قصبوں میں اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور جنگجوؤں کو خیام کے قصبے تک دھکیلا گیا جو سرحد سے چھ کلومیٹر اندر کی طرف ہے۔
جمعے کو حزب اللہ کے حکام نے بتایا کہ ان کی جانب سے خیام کے مشرقی حصے سے کم از کم چار راکٹ اسرائیلی فوجیوں پر داغے گئے۔
لبنان کے سکیورٹی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی فوج کچھ دیہاتی علاقوں میں آگے بڑھی ہے۔
ان کے مطابق اسرائیل قصبے پر کسی بڑے حملے سے قبل خیام کو دوسرے علاقوں سے الگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لبنان کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے جنوبی علاقوں کے دیہاتوں پر حملوں کے نتیجے میں پانچ طبی ارکان ہلاک ہوئے ہیں جن کا تعلق حزب اللہ کی ریسکیو فورس کے ساتھ تھا۔
وزارت صحت کے مطابق ایک سال سے زائد عرصے کے دوران اب تک اسرائیلی حملوں میں ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 200 طبی کارکن بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان ہزاروں لوگوں کو بحفاظت گھروں تک پہنچانا ہے جن کو حزب اللہ کے راکٹ حملوں کی وجہ سے اسرائیل کے شمالی حصے سے نکالا گیا۔
’انسانیت اور حوصلے کو بموں اور گولیوں کا سامنا‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے نئے انڈرسیکریٹری جنرل ٹام فلیچ کا کہنا ہے کہ رواں سال اب تک دنیا بھر میں 281 امدادی کارکن مارے جا چکے ہیں۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا ’امدادی کارکنوں کو جس طرح سے مارا جا رہا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی، اور انسانیت اور حوصلے کو بموں اور گولیوں کا سامنا ہے۔‘