’چھاپے کے دوران خواتین کا اغوا‘، پنجاب کے 7 ایس ایچ اوز کے خلاف مقدمہ
’چھاپے کے دوران خواتین کا اغوا‘، پنجاب کے 7 ایس ایچ اوز کے خلاف مقدمہ
جمعہ 6 دسمبر 2024 11:01
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
ٹوبہ ٹیک سنگھ, ساہیوال اور ڈیرہ رحیم کی پولیس نے ریڈ کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ساہیوال ڈویژن میں پولیس نے خود ہی اپنے 7 ایس ایچ اوز پر دو خواتین اور ایک بچے کو اغوا کرنے کا مقدمہ جمعرات کو درج کیا ہے۔ یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر درج کیا گیا ہے۔
تھانہ ڈیرہ رحیم میں درج اس ایف آئی ار میں جن سات تھانوں کے ایس ایچ اوز پر مقدمہ درج ہوا ہے ان میں صدر کمالیہ، چٹیانہ، ڈیرہ رحیم، ہڑپہ اور وریام تھانے کے ایس ایچ او شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ساہیوال اور جھنگ کے تھانوں کے ایس ایچ او بھی اس میں شامل ہیں۔
ایف آئی ار کے متن کے مطابق ان تھانوں کی پولیس نے ریحانہ بی بی اور نادیہ پروین نامی دو خواتین اور ایک چھوٹی بچی سونیا کو ایک ریڈ کے دوران اغوا کیا اور آج تک ان کو واپس نہیں کیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کئی اضلاع کے ایس ایچ اوز کو اس طرح ایک ہی مقدمے میں اغوا کی دفعات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
واقعہ ہے کیا
سات تھانوں کے ایس ایچ اوز پر ہائی کورٹ کے حکم سے ہونے والی اس ایف آئی ار کی شروعات 2 نومبر 2024 کو ڈیرہ رحیم کے علاقے نئی والا بنگلہ میں اس رات ہوئی جب شادی کی ایک تقریب پر پولیس نے بظاہر کچھ ملزمان کی کھوج میں ایک بڑا ریڈ کیا تھا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی پولیس کو کچھ ملزمان کی تلاش تھی اور انہوں نے ساہیوال اور ڈیرہ رحیم کی پولیس سے رابطہ کرنے کے بعد مقامی نفری کو بھی ساتھ لیا اور ریڈ کیا۔
مقامی صحافی محمد رضوان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک شادی کی تقریب تھی اور جن لوگوں کی یہ شادی تھی ان کو اوڈ کہا جاتا ہے اور یہ ایک پورا قبیلہ آپ سمجھ لیں تو ان کی ایک بڑی شادی تھی جن پہ لوگ آئے ہوئے تھے۔ اس رات پولیس نے اتحادی کے گھر پر چھاپہ مارا اور یہاں سے بڑی گرفتاریاں کی گئیں حتیٰ کہ دولہا اور دلہن کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ اس علاقے میں اس سے پہلے کبھی اتنی بڑا ریڈ نہیں دیکھنے میں آیا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جس خاندان کی شادی پہ ریڈ ہوا ان پر کافی زیادہ مقدمے مختلف تھانوں میں پہلے سے ہی درج ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے اور ان مقدمات کی تفصیل بھی موجود ہے۔ تاہم اس رات پولیس کو کن ملزمان کی تلاش تھی اور شادی کی تقریب کو ہی کیوں چنا گیا یہ باتیں تو پولیس ہی بتا سکتی ہے۔ ہمیں صرف اتنا پتہ ہے کہ ان کے اوپر مقدمات پہلے سے اور کئی سالوں سے ہیں اور اس رات ریڈ میں ان کے درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا۔‘
پنجاب اسمبلی اور ہائیکورٹ میں بازگشت
اس واقعے کے بعد پنجاب اسمبلی میں ایک رکن اسمبلی نے پوائنٹ آف آرڈر پہ یہ نقطہ اٹھایا تھا کہ پولیس نے ایک شادی کی تقریب پر ریڈ کیوں کیا جس پر سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے بھی ریمارکس دیے کہ ملزمان کو قانون کے دائرے میں لانا پولیس کا فرض ہے لیکن اس کا طریقہ کار اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر رکھنا یہ بھی پولیس کا اتنا ہی فرض ہے۔
تاہم ان واقعات کے حوالے سے خود پولیس کی جانب سے کبھی بھی کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ اسی دوران اسی خاندان کی خواتین ایمن بی بی اور کوثر بی بی نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی اور مؤقف اپنایا گیا کہ شادی کی رات جتنے لوگوں کو پکڑا تھا، ان کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر مقدمات بھی ظاہر کیے گئے ہیں تاہم گھر کی دو خواتین اور ایک چھوٹی بچی ابھی بھی لاپتہ ہے، انہیں بازیاب کروایا جائے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ نہ تو پولیس ان کی گرفتاری ظاہر کر رہی ہے اور نہ انہیں ہمارے حوالے کیا جا رہا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے کئی ہفتے اس مقدمے کی سماعت کی اور پولیس اور سرکار کا مؤقف جاننے کے بعد جب یہ ثابت ہو گیا کہ اس رات ریڈ ہوئی تھی۔ جن سات تھانوں کے ایس ایچ اوز پر الزام عائد کیا گیا ہے، ہائی کورٹ نے ان پر مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
گزشتہ روز 5 دسمبر کو بالآخر ڈیرہ رحیم کی پولیس نے اپنے ہی ایس ایچ او سمیت دیگر چھ تھانوں کے ایس ایچ اوز پر اغوا کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
اس حوالے سے پولیس ترجمان یا پولیس افسران ریکارڈ پر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے لہٰذا ابھی اس پر بات نہیں ہو سکتی۔