’واسطہ ای رب دا تو جاویں وے کبوترا ۔۔۔‘ ویسے تو یہ مصرعہ سنہ 1956 میں ریلیز ہونے والی فلم کی ہیروئن کے منہ سے پہلی بار سنا گیا جو محبوب کی جدائی میں تڑپ رہی ہوتی ہے، تاہم یہ پہلی بار تھا نہیں۔
اس سے کئی عشرے قبل ٹھیک یہی کچھ پہلی عالمی جنگ کے دنوں میں ان فوجیوں نے بھی کہا تھا جنہیں دشمنوں میں گھرنے کے بعد جان کے لالے پڑے ہوئے تھے، بس الفاظ انگریزی میں تھے۔
اس واقعے پر آگے چل کر بات ہو گی اس سے قبل یہ جان لیجیے کہ اس جدید دور میں بھی آج فرانس اور چین وہ بڑے ممالک ہیں، جن کی افواج میں کبوتروں کی باقاعدہ یونٹس موجود ہیں جہاں ان کو پیغام رسانی کی تربیت دی جاتی ہے جبکہ دوسرے ممالک کی افواج میں بھی کسی حد تک کبوتروں کا استعمال ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’ہم ساتھ ساتھ ہیں‘، فرانسیسی شخص اور کبوتر کی دوستی کی کہانیNode ID: 575246
-
جانوروں سے ’بات چیت‘، سائنسدان کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں؟Node ID: 887030
ویب سائٹ این زیڈ زیڈ کے مطابق فرانس میں کبوتروں کے دستے کا سینٹر پیرس سے چند منٹ کی مسافت پر واقع ہے جہاں سینکڑوں ٹرینڈ فوجی کبوتر موجود ہیں۔ کوئی بھی کبوتر اس میں ’بھرتی‘ نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے باقاعدہ ہیچری ہوتی ہے اور انڈوں سے نکلتے ہی بچوں کی تربیت شروع کر دی جاتی ہے۔
اس کے سربراہ فوجی افسر ڈی لوگیس سائلوین ہیں جن کا تعلق بنیادی طور پر اس یونٹ سے ہے جس کا کام جنگ کے دنوں میں پیغام رسانی ہوتا ہے۔
ڈرونز کے دور میں کبوتر کیوں؟
واقعی یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ سیٹلائٹ، موبائل، ڈرونز اور جانے کون کون سے ذرائع کے باوجود آخر فوج کو جاسوس یا پیغام رساں کبوتر رکھنے کی ضرورت کیوں ہے، مگر اس کا جواب اس سے بھی دلچسپ ہے کیونکہ ماہرین اس کو ٹیکنالوجی سے آگے کی چیز قرار دیتے ہیں۔
کمپیوٹرز ہیک ہو سکتے ہیں، ریڈیو سگنلز کو جام کیا جا سکتا ہے، ڈرونز گرائے جا سکتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ اس وقت کام آتے ہیں جب ٹیکنالوجی عملاً کافی کمزور ہو جاتی ہے۔
رومانوی مگر بہادر اور جفاکش
بظاہر رومانوی اور نرم جسم و پر رکھنے والے پرندے کو ماہرین بہت بہادر اور جفاکش قرار دیتے ہیں کیونکہ بغیر کچھ کھائے پیے کئی گھنٹوں بلکہ دنوں تک اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسی طرح خراب موسم میں بھی اپنی سروس پوری کرتا ہے۔

کبوتر کیا کچھ لے جا سکتا ہے؟
آج کے سمارٹ دور میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کبوتر فقط چند لکھے ہوئے کوڈز ہی پہنچا سکتا ہے بلکہ بہت کچھ لے جا سکتا ہے، جس کا اندازہ سم یا میموری کارڈ سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس قدر چھوٹی ہونے کے باوجود یہ چیزیں اپنے اندر کیا کچھ رکھتی ہیں۔
اسی طرح مختلف رنگوں کے چھلے پاؤں میں پہنائے جاتے ہیں جن کا مخصوص مطلب ہوتا ہے جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ان پر کوئی چھوٹا کیمرہ نصب کر کے علاقے کا جائزہ لیا جائے۔
پرانے زمانے میں کیپسول نما چیز میں ہاتھ سے لکھے مختصر پیغام رکھ کر کبوتر کے پیروں سے باندھ دیا جاتا ہے جن کو وہ مطلوبہ مقام تک پہنچاتے اور ان کی وجہ سے کئی بار جنگوں کے پانسے پلٹے ہیں اور پوری پوری بٹالینز کی زندگیاں بچیں۔
کبوتر ہی کیوں، کوئی اور پرندہ کیوں نہیں؟
اس حوالے سے ماہرین کہتے ہیں کہ کبوتر ایک وفادار پرندہ ہے اور چھوڑے جانے کے بعد بھی واپس آ جاتا ہے یہ خصوصیت طوطے، کوے یا کسی دوسرے پرندے میں نہیں پائی جاتی، اگرچہ ان سے بھی یہ کام لینے کی کوششیں کی گئیں جو زیادہ کامیاب نہیں رہیں۔
اگرچہ کبوتروں سمیت دیگر پرندوں پر محققین بہت کام کر چکے ہیں مگر ابھی تک اس بات کا پتہ نہیں چلا سکے کہ یہ آخر اتنی تیزی اور درستی کے ساتھ کیسے منزل تک پہنچتا ہے اور اس سے ملتے جلتے دوسرے پرندے یہ صلاحیت کیوں نہیں رکھتے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ زمین پر نظر آںے والی چیزوں اور سورج کی مدد سے سمت کا تعین کرتا ہے تاہم ماہرین اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پائے کہ کسی مانوس مقام سے منزل تک آنا تو سمجھ آتا ہے مگر یہ اجنبی مقامات پر چھوڑے جانے کے باوجود واپس کیسے پہنچتے ہیں۔

اس طریقہ کار کا موجود کون تھا؟
اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ وہ کون تھا جسے سب سے پہلے کبوتر کی اس خصوصیت کا ادراک ہوا تاہم یہ ضرور ہے کہ ہزاروں سال قبل لڑی جانے والی جنگوں میں بھی پیغام رسانی کے لیے ان کے استعمال کی تاریخ ملتی ہے۔
بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا ان کو پالنے کا، جبکہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے وقت یہ استعمال بہت مشہور ہوا اور اس دوران انہوں نے جو پیغامات پہنچائے وہ اخبارات میں چھاپے گئے اور ان کی وجہ سے جو جنگیں جیتی گئیں یا جانیں بچائی گئیں ان پر کتابیں بھی لکھی گئیں۔
کبوتر کو پتے کا پتہ کیسے لگاتا ہے؟
بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہےکہ کبوتر نے ڈاکیے کی طرح پتہ پڑھ کر مختلف گلیوں میں نہیں جانا ہوتا بلکہ وہیں جانا ہوتا ہے جہاں کی اس کو ٹریننگ دی گئی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر گھروں پر پالے جانے والے کبوتر کو کہیں دور جا کر بھی چھوڑا جائے تو وہ سیدھا گھر پہنچتا ہے۔
اس لیے عالمی جنگوں کے دوران جب فوجیں آگے بڑھتیں تو ان کے پاس ایک بڑی گاڑی ہوتی جس میں کبوتروں کے پنجرے ہوتے۔ چونکہ ان کبوتروں کو کسی خاص کنٹرول ایریا، گھر، قلعے یا کسی دوسرے مقام پر پالا گیا ہوتا تھا اس لیے باہر جب بھی ان کو چھوڑا جاتا وہ وہیں واپس پہنچتے۔
اسی طرح بعض کبوتر ایسے بھی تھے جو دو سے تین مقامات کا چکر لگاتے، یعنی ان کو ایک مقام پر چھوڑا جاتا تو وہ ایک یا دونوں مقامات کا چکر لگا کر واپس آتے۔

کبوتروں کی تربیت کیسے ہوتی ہے؟
جب کبوتر کو کسی جگہ لایا جائے اور کچھ روز رکھا جائے تو وہ اس مقام سے مانوس ہو جاتا ہے اور اس کو اپنا گھر سمجھتا ہے اس لیے کہیں بھی جانے کے بعد واپس پہنچتا ہے۔
اسی طرح وہ پرندے جو کسی مقام پر پیدا ہوں اور بچپن گزاریں وہ اس مقام سے بہت انسیت رکھتے ہیں اس لیے انہیں کہیں سے بھی چھوڑا جائے وہ ہر حال میں وہاں پہنچتے ہیں۔
فوجوں کے زیراستعال عام طور پر وہی کبوتر ہوتے ہیں جو وہیں انڈوں سے نکلے ہوتے ہیں۔
تربیت کا پہلا مرحلہ عام گھریلو کبوتروں کی طرح ہوتا ہے یعنی وہ اڑ جانے کے بعد واپس آتے ہیں۔ پھر ان کو وہاں سے کچھ دور لے جا کر چھوڑا جاتا ہے، پھر یہ فاصلہ مسلسل بڑھایا جاتا ہے، اس دوران کبوتر کی ٹانگوں اور پروں کے بیچ ڈوری وغیرہ بھی باندھی جاتی ہے تاکہ وہ اس کے عادی ہو جائیں۔
اس لیے جنگ کے دوران جب کبوتر کو کوئی اہم پیغام دے کر بھیجا جاتا ہے تو اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا چل رہا ہے وہ تو بس اپنے گھر پہنچ رہا ہوتا ہے جبکہ نیچے ہونے والے دھماکے یا دھواں وغیرہ اس کو مزید تیزی سے اڑنے کی ترغیب دیتا ہے۔

جان دے کر سینکڑوں جانیں بچانے والا ’ہیرو کبوتر‘
ویسے تو یہ اعزاز کئی ممالک اپنے اپنے فوجی کبوتروں کو دیتے ہیں تاہم Cher Ami کا نام بطور خاص لیا جاتا ہے اور یہ وہی تھا جس کا ذکر شروعات میں ہوا تھا۔
سنہ 1918 میں امریکی فوج کے ایک دستے کو جرمن فوجیوں نے گھیر لیا اور شدید لڑائی جاری تھی، اس دوران کچھ اہلکاروں نے اپنے بیس پر پیغام بھجوانے کے لیے کبوتر اڑایا تو وہ ان کی آنکھوں کے سامنے جرمنوں کی گولیوں میں آ گیا۔ پھر ایک اور اڑایا وہ چلا گیا مگر مدد نہیں آئی کیونکہ وہ بھی مارا گیا تھا، جس کے بعد بیس پر موجود فوج یہ سمجھی کہ سب فوجی مارے جا چکے ہیں حالانکہ وہاں 200 کے قریب فوجی زندہ تھے۔
